بعد از سیلاب حکمت عملی

حالیہ سیلاب سے متاثرین کی عوام اور غیرسرکاری فلاحی اداروں نے جس انداز سے مدد کی ہے اُسے عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے تاہم اِس کے باوجود‘ سیلاب متاثرین کی بحالی اور گھروں یا کاروبار کی تعمیر نو کے لئے مالی وسائل کی ضرورت ہے جبکہ یکساں فوری ضرورت اس بات پر غور کرنے کی بھی ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث قدرتی آفت دوبارہ آتی ہے تب پاکستان کیا کرے گا اور تعمیر نو کی جاری کوششیں تب کیسے آگے بڑھائی جائیں گی۔ اس وقت اہم مسئلہ یہ نہیں ہے کہ تعمیر نو کی جائے یا نہیں بلکہ اس کا جواب واضح ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مستقل طور پر ایسا کیسے کیا جائے؟پاکستان کی معروف و مشہور شخصیات نے مختصر ویڈیو پیغامات میں سیلاب سے متاثرہ افراد کے لئے گھروں کی تعمیر نو کے حوالے سے اپنے اپنے تجربات کا بیان کیا ہے اور دل کو چھو لینے والی اپیلیں جاری کی ہیں اور احترام کی علامت کے طور پر‘ انہوں نے بے گھر ہونے والوں کے لئے پختہ گھر تعمیر کروائے ہیں۔ سیمنٹ کی رہائش گاہوں کو یقینی طور پر پہلے سے تیار کردہ کیبنوں سے زیادہ سراہا جا رہا ہے۔ تاہم سیلاب متاثرین کی آباد کاری کی کوششوں میں دو چیزیں مشترک دکھائی دیتی ہیں ایک پائیداری کا عنصر ہے کہ مستقبل کے سیلابوں پر نظر رکھے بغیر گھر تعمیر کئے جا رہے ہیں اور دوسرا اِن کوششوں میں مقامی برادریوں کی جانب سے بہت ہی کم شمولیت دکھائی دیتی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے کیا یہ سب کوششیں بہتر ہیں اور کیا ہم یہی کچھ کر سکتے ہیں؟ کیا بے گھر افراد کے لئے رہائش کا انتظام کرنے کے دوسرے طریقے بھی ہوسکتے ہیں؟ کیا اس کے علاوہ بھی ایسے خیالات ہیں جن کو ذہن میں رکھنا چاہئے جیسا کہ کسی علاقے میں سیلاب کے دوبارہ آنے کا امکان؟ کیا یہ ضروری ہے کہ مقامی برادریوں کو بھی اِن کوششوں کا حصہ بنایا جائے جو نہ صرف ڈیزائننگ بلکہ اپنے گھروں کی تعمیر مقامی حالات اور ضرورت کے مطابق چاہتے ہیں آخر اِنہی لوگوں نے اِن گھروں میں رہنا ہے اور اِنہی کو کام اور کمائی کے ذرائع پیدا کرنے ہیں لہٰذا سیلاب متاثرین کی امداد ایسی ہونی چاہئے جس میں اُنہیں اپنے وسائل اپنی ضرورت کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملے۔ کچھ عرصے سے راقم الحروف پائیدار اور کمیونٹی پر مبنی ڈیزائن کا جائزہ لینے اور اس کی پیمائش میں مصروف ہیں جو معروف آرکیٹیکٹ اور کیمبرج یونیورسٹی میں سسٹین ایبل ڈیزائن کی سر آرتھر مارشل پروفیسر یاسمین لاری نے تخلیق کئے ہیں۔ یہ ڈیزائن پہلے ہی سندھ میں سیلاب سے متاثرہ گھرانوں کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ پروفیسر لاری اور ان کی ٹیم نے مٹی‘ بھوسے‘ بانس اور چونے سے بنے گھر تعمیر کئے جو سیلاب کے خلاف زیادہ اچھی مزاحمت رکھتے ہیں۔ ان کی تعمیر میں سیمنٹ کی بجائے چونا استعمال کیا گیا جو اہم ہے کیونکہ چونے کے گھر پانی میں زیادہ دیر ڈوبے رہنے کی صورت میں بھی قائم رہتے ہیں۔ اِسی طرح بانس کا استعمال کیا جاتا ہے جو دیواروں اور چھتوں کو مضبوط بنایا ہے اور ڈھانچے کو مزید تقویت دیتا ہے۔ اس ڈیزائن کے دو اہم فوائد ہیں۔ سب سے پہلے اس میں خطے میں مزید سیلاب کے امکان کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستانیوں کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتاری سے خوفناک سیلاب سے نمٹنے کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ تین کروڑ (تیس ملین) لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ سیلاب سے متاثرہ زرخیز زمین کے ساتھ ان جگہوں سے بھی دور چلے جائیں گے جہاں ان کے آباؤ اجداد دفن ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ معاشی اور ثقافتی وجوہات کی بنا پر لوگ سیلاب زدہ علاقوں میں واپس آتے رہے ہیں۔ ہمیں اپنی بحالی کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ تعمیر کیے جانے والے گھروں کے ڈیزائن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ یہ لمبے عرصے تک کھڑے پانی میں اپنا وجود برقرار رکھ سکیں اور تعمیر میں مقامی طور پر دستیاب تعمیراتی مواد شامل ہونا چاہئے جیسا کہ چونا اور بانس وغیرہ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سیلاب متاثرین کے لئے گھروں کی تعمیر کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جب ہم مقامی طور پر موجود تعمیراتی مواد استعمال کرتے ہیں تو ایسی خریداری کرنے سے دیگر مقامی لوگوں کی بھی مدد ہوتی ہے۔ پاکستان حکومت آب و ہوا کے انصاف کے لئے عالمی سطح پر کوششیں کر رہی ہے اور اِس سلسلے میں حکومت کی کامیابی واضح ہے تاہم پائیدار تعمیر نو کو یکساں اہمیت دی جانی چاہئے۔ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کم ہیں۔ مقامی معیشتیں تباہ ہو چکی ہیں اور ہم سب نے کئی بار اس بات کی مشق کی ہے کہ امداد پر انحصار کس طرح معیشت کو مفلوج کر دیتا ہے لہٰذا ہمیں یہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کہ سیلاب کے بعد تعمیر نو کے عمل کے لئے صرف پیسے ہی کی ضرورت نہیں بلکہ تخیل‘ دور اندیشی اور تخلیقی صلاحیتوں کی بھی ضرورت ہے۔ (مضمون نگار کنگز کالج‘ لندن کے شعبہ سیاسیات میں معلمہ (پروفیسر) تعینات ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: حمیرا اختیار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)