معاشی اصلاحات‘ امداد اور خودانحصاری

رعایتی نرخ (سبسڈی) پر آٹا فراہم کرنے والی دکانوں کے سامنے مردوں اور عورتوں کا ہجوم غذائی اجناس کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی جھلک پیش کر رہا ہے۔ ملک کے طول و عرض سے ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جن میں آٹے کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے اور میرپورخاص (سندھ) میں ایسے ہی ایک ہجوم میں شامل چھ بچوں کا باپ بھگدڑ کے باعث اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ضروریات ِزندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے لوگوں کو مفلسی میں دھکیل دیا ہے اِن بدترین معاشی بحران کے حالات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے‘ یہ دعوے حقیقت سے بہت دور ہیں نہ پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر آیا ہے اور نہ ہی ہماری معاشی بحالی کے امکانات موجود ہیں‘ سیاسی وجوہات کی بنا پر ہماری حکومت سخت مگر ضروری اقدامات لینے سے گریز کررہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات تعطل اور قرضے کی نئی قسط التواء کا شکار ہے جس نے دیگر اداروں سے ملنے والے قرض اور دوست ممالک سے ملنے والی رقوم کو متاثر کیا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں۔ آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ اُس کی شرائط کو تسلیم کیا جائے جبکہ حکومت کے لئے ٹیکس شرح بڑھا کر مہنگائی میں اضافہ کافی مشکل ہوگیا ہے اور اگر ’آئی ایم ایف‘ کے مطالبات تسلیم کئے گئے تو بلاشبہ اس سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا لیکن حکومت کے پاس یہ کڑوی گولی نگلنے کے علاؤہ کوئی چارہ بھی نہیں۔ ’آئی ایم ایف‘ کے بیل آؤٹ پیکج میں مزید تاخیر تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ اب جب ملک پر ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہے اور انہوں نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے لیکن شاید حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کا وعدہ کئے بغیر باضابطہ طور پر مذاکرات کی بحالی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ مذاکرات سے قبل ہمیں کچھ پیشگی اقدامات بھی لینے ہوں گے جن میں روپے کی قدر میں کمی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے۔ وزیرِاعظم کے اعلان کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم اگلے چند دنوں میں اسلام آباد پہنچ رہی ہے لیکن اس کے آثار نظر نہیں آرہے۔ پاکستان آنے کی بجائے آئی ایم ایف حکام نے جنیوا میں منعقد ہونے والی ڈونر کانفرنس میں پاکستانی حکام سے ملاقات کی لیکن اس ملاقات کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ مذکورہ ڈونر کانفرنس میں جہاں ممالک نے لاکھوں سیلاب زدگان کی بحالی اور تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر کی تعمیرِ نو کے لئے تقریباً دس ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا وہیں وزیرِاعظم پاکستان نے خطاب کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے کہا کہ وہ پاکستان کو مالی قرضہ دینے سے قبل اپنی معاشی اصلاحات کی شرائط کو کم کردے اور ایسا کرنے سے پاکستان جو کہ سیلاب کے تباہ کن نتائج سے نمٹ رہا ہے، اسے ’سانس لینے کا موقع‘ مل جائے گا۔ یہاں اس بات کا امکان موجود ہے کہ پچھلے سال پاکستان کے ایک تہائی حصے کو اپنی لپیٹ میں لینے والے سیلاب کے پیشِ نظر آئی ایم ایف اپنی شرائط میں کچھ نرمی کردے لیکن آئی ایم ایف ملک کی مالی صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے اقتصادی اصلاحات کو ملتوی کرنے پر ہرگز رضامند نہیں ہوگا۔ حالیہ مہینوں میں قومی آمدنی (ریونیو کلیکشن) میں کمی نے اقتصادی اصلاحات کو بہت ضروری بنادیا ہے۔ یقینی طور پر آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پاکستان کو درپیش موجودہ معاشی مشکلات سے نکلنے کا حل نہیں لیکن دیگر مالیاتی اداروں سے معاملات طے کرنے کیلئے یہ اہم کردار ادا کرے گی‘ہمیں اپنے طور فوری اور سخت گیر قسم کی معاشی اصلاحات کرنا ہوں گی‘ قبل اِس کے کہ بہت دیر ہوجائے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)