کسی زبان کو نظر انداز کرنے کا طریقہ


آئندہ ”ڈیجیٹل مردم شماری 2023ء“ کے فارم نمبر 2 میں جنس‘ عمر‘ مذہب‘ ازدواجی زندگی‘ قومیت اور ’مادری زبان‘ کے بارے میں چند بنیادی سوالات شامل کئے گئے ہیں۔ اس فارم کے مطابق اس مردم شماری میں کل 14 زبانوں کو ”مادری زبان“ کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ ان زبانوں میں اردو‘ پنجابی‘ سندھی‘ پشتو‘ بلوچی‘ کشمیری‘ سرائیکی‘ ہندکو‘ براہوی‘ شینا‘ بلتی‘ میواتی‘ کیلاش اور کوہستانی زبانیں شامل ہیں۔ ’دیگر‘ زبانوں کے لئے ایک علیحدہ باکس دیا گیا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں تقریبا ً60 ایسی زبانیں ہیں جنہیں ادارہئ شماریات نے ’دیگر‘ کے زمرے میں رکھا ہے۔ اِن میں کھووار‘ گوجری‘ توروالی‘ گوری‘ بروشسکی‘ واخی‘ گواربتی‘ پلولہ‘ دامیلی‘ اور موری‘ دھتکی‘ مارواڑی‘ پہاڑی‘ بیتیری‘ مانکیالی‘ اوشوجو‘ کاٹی‘ کامویری وغیرہ جیسی کئی دیگر زبانیں شامل ہیں لیکن اِن کا ذکر مردم شماری فارم میں نہیں کیا گیا ہے۔ ادارہ برائے شماریات پاکستان (PBS) کی جانب سے مردم شماری کرنے والوں کے لئے فراہم کردہ ہدایات نامہ (مینوئل) میں مادری زبان کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ ”وہ زبان جو کوئی شخص بچپن سے بولتا رہا ہے۔“ مادری زبان وہ زبان ہے جسے ایک شخص اپنے والدین اور اہل خاندان کے دیگر اراکین آپسی بات چیت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مردم شماری میں زبان کی عدم دستیابی کے مسئلے کے علاؤہ دیگر خدشات بھی ہیں جن میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ (خیبرپختونخوا کے اضلاع) سوات‘ شانگلہ‘ اپر دیر‘ اپر اور لوئر کوہستان‘ کوہلائی پالس اور چترال کے بالائی علاقوں میں موسم سرما کے اواخر میں مردم شماری کی جائے گی۔ ایک طرف‘ عہدیدار جیو ٹیگنگ کے لئے پہاڑیوں پر موجود ہر ڈھانچے یا عمارت میں نہیں جا سکتے ہیں۔ دوسری طرف‘ ان پہاڑی علاقوں کے بہت سے لوگ شدید سرد موسم کی وجہ سے نقل مکانی کر کے پنجاب‘ سندھ اور خیبر پختونخوا کے میدانی علاقوں میں تین سے چار مہینے گزارتے ہیں۔ امکان یہ ہے کہ ایسے افراد کی گنتی نہیں ہو سکے گی۔ اِسی طرح زبان کے کالم میں‘ چونکہ زیادہ تر زبانوں کو خارج کردیا گیا ہے‘ لہٰذا بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔ ادارہ شماریات نے معلومات جمع کرنے کے نظام میں زیادہ محنت اور غوروخوض نہیں کیا۔ کیا کوہستانی کی اصطلاح سے مراد گوری اور توروالی زبانیں بھی ہیں؟ یہ ایک جائز سوال ہے کیونکہ سوات میں ضلع بحرین اور اپر دیر کی تحصیل کلکوٹ میں ایسے لوگ آباد ہیں جو ان دونوں زبانوں کو کوہستانی سمجھتے ہیں تاہم فارم 2 میں یہ واضح ہے کہ کوہستانی کی اصطلاح میں گوری یا توروالی شامل نہیں اور صرف میو یا میا زبان سے مراد ہے جو خیبرپختونخوا میں بالائی اور نچلے کوہستان اضلاع کے مغربی حصے میں بولی جاتی ہے۔ یہ مشرقی کوہستان کی شینا زبان سے بھی مراد نہیں ہے۔ شینا کوہستانی کے نام سے جانی جاتی ہے اور شینا زبان ایک اہم بولی ہے۔ اس خطے کے لوگ اکثر اسے کوہستانی بھی کہتے ہیں۔ اب ان کے لئے یہ آسان ہے کہ وہ اس شکل میں شینا زبان کا انتخاب کرسکتے ہیں۔مئی دوہزارگیارہ میں‘ خیبرپختونخوا اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا جس کا عنوان تھا ”خیبرپختونخوا نصاب‘ درسی کتب اور معیار تعلیم کی دیکھ بھال ایکٹ 2011ء“ اس ایکٹ کے تحت صوبے کی کم از کم پانچ زبانوں پشتو‘ سرائیکی‘ ہندکو‘ کھواڑ اور کوہستانی کو پرائمری تعلیم کے مضامین کے طور پر تعلیمی نصاب میں شامل کیا گیا اور نصاب کی تیاری کا عمل ڈائریکٹوریٹ آف کریکولم اینڈ ٹیچر ایجوکیشن (ڈی سی ٹی ای) کو سونپ دیا گیا۔ خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کی مدد سے ’ڈی سی ٹی ای‘ نے ان پانچوں زبانوں میں کورس کی کتابیں تیار کیں اور انہیں سرکاری سکولوں تک پہنچایا۔ اگر کوہستانی کا مطلب توروالی اور گوری بھی ہوتا تو صوبائی حکومت ان زبانوں میں کتابیں چھاپ کر ان کے متعلقہ علاقوں کے سکولوں میں بھیج دیتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا لہٰذا اب سرکاری ’کوہستانی‘ زبان صرف لوئر اور اپر کوہستان اضلاع کے مغربی حصے میں ڈوبر‘ رونالیہ‘ پٹن‘ کامیلا‘ سیو اور کندھیا کی زبان ہے۔ اگر گنتی کرنے کے عمل (مردم شماری) میں توروالی اور گوری کو کوہستانی زبان کے طور پر شامل کیا تو اس سے صرف اِن زبانوں کو نقصان پہنچے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اپنی شناخت کھو دیں گے۔ یہ تینوں زبانیں‘ کوہستانی‘ گوری اور توروالی ایک نہیں بلکہ مختلف ہیں۔ جب بھی ان تینوں زبانوں کے بولنے والے ملتے ہیں تو وہ ایک تیسری زبان بولتے ہیں جو کہ زیادہ تر پشتو ہوتی ہے۔ اگر زبان ایک ہوتی تو لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے پشتو یا اردو کا سہارا نہ لینا پڑتا۔ توروالی‘ گوجری اور گوری کے بولنے والوں نے بھی ایک پٹیشن کے ذریعے پشاور ہائی کورٹ سے درخواست کی ہے کہ ان کی زبانوں کو اس ڈیجیٹل مردم شماری میں شامل کیا جائے۔ ہندکو‘ پوٹھوہاری اور پنجابی بولنے والے اور کافی حد تک سرائیکی بولنے والے ایک دوسرے کی زبانیں سمجھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر بہت سے لوگ ان زبانوں کو ایک ہی زبان کی بولی سمجھتے ہیں لیکن جب مردم شماری کی بات آتی ہے تو اِن مذکورہ زبانوں کو ایک نہیں بلکہ الگ الگ سمجھا جاتا ہے اور مردم شماری میں سرکاری طور پر مختلف زبانوں کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر توروالی اور گاوری بولنے والے اپنی مختلف زبانوں کو ایک اجتماعی نام کے تحت رکھیں گے‘ تو وہ نقصان میں ہوں گے کیونکہ مردم شماری کی بنیاد پر وسائل تقسیم کئے جاتے ہیں۔ آنے والے برسوں میں‘ ان علاقوں میں جہاں بچوں کی اکثریت یہ زبانیں بولتی ہے‘ سرکاری تعلیم میں گوری اور توروالی کو شامل کرنے کا پھر کوئی موقع نہیں ملے گا۔’کوہستانی‘ کی اصطلاح ہند آریائی زبانوں کے خاندان کی ذیلی شاخ ہے جس میں مایا یعنی کوہستانی‘ گوری‘ توروالی‘ بٹیری‘ تیراہی‘ گورو‘ چلیسو‘ مانکیالی زبانیں شامل ہیں اور یہ درجہ بندی زیادہ تر سولہویں صدی میں کی گئی تھی۔ اعداد و شمار جمع کرنا اور اس کی صداقت پاکستان میں ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے۔ مردم شماری اعداد و شمار جمع کرنے کا ایک  اہم ذریعہ ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: زبیر توروالی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)