کامیاب و جرأت مندانہ خارجہ پالیسی

سال دوہزاربائیس تین کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے لئے تباہ کن رہا تاہم اِن سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی کے لئے وفاقی حکومت نے کامیاب و جرأت مندانہ خارجہ پالیسی اختیار کی۔ مون سون موسلادھار بارشوں کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے ناقابل تلافی جانی نقصانات اور بیماریاں دیکھی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونیسیف‘ کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق سیلاب متاثرین میں چالیس لاکھ بچے شامل ہیں جو آلودہ اور خطرناک سیلابی پانی کے قریب رہ رہے ہیں اور اِن کی صحت و زندگیاں خطرے میں ہیں جبکہ ایک کروڑ لڑکیوں اور لڑکوں کو اب بھی زندگی بچانے والی امداد کی ضرورت ہے۔ برسرزمین حالات یہ ہیں کہ سیلاب متاثرین کی بدقسمتی کا دور ابھی ختم نہیں ہوا۔ پاکستان کی تاریخ کے کم عمر وزیر خارجہ‘ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لئے گزشتہ سال کامیابیاں کا رہا ہے جس میں انہوں نے بہت محنت کی اُور ملک و قوم کو آزمائش سے نکالنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کیا۔ اپنی وزارتی کوششوں کے دوران‘ نوجوان وزیر خزانہ کی بات چیت میں ہمیشہ اہم موضوع سیلاب متاثرین اُور پاکستان کے غریبوں کی حالت زار رہی۔ گزشتہ اگست میں دفتر خارجہ نے بلاول بھٹو کی قیادت میں ”پاکستان فلڈ رسپانس پلان (ایف آر پی) 2022ء“ تشکیل دیا جس نے اقوام متحدہ کی فلیش اپیل کے اجرأ میں کلیدی تعاون کی صورت اہم کردار ادا کیا۔ مذکورہ اپیل نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی اور امریکہ‘ چین‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور کویت سمیت دیگر ممالک آفت زدہ پاکستان کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔ قابل ذکر ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں عالمی بینک نے شاہ سلمان ہیومینیٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر‘ ریڈ کراس سوسائٹی آف چائنا‘ قطر‘ کویت اور متحدہ عرب امارات کی ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز جیسے اداروں کے ساتھ تکنیکی امداد پر اتفاق کیا اور مجموعی طور پر 37 کروڑ (370ملین) ڈالر امداد کے وعدے ہوئے اور مزید امداد کی پیشکشیں کی گئیں۔ اِس دوران یورپی یونین‘ ایشیائی ترقیاتی بینک اور ڈبلیو ایچ او جیسی تنظیموں نے بھی پناہ گاہ‘ خوراک اور ادویات سمیت مالی اور طبی امداد کی صورت پاکستان کو سہارا دینے کا اعلان کیا۔موجودہ حکومت پر ہونے والی تنقید میں ایک تفصیل جو اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس‘ جن کا شمار دنیا کی بااثر ترین شخصیات میں ہوتا ہے نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مقدمہ کس طرح لڑا۔ یہ وزیر خزانہ بلاول کی دعوت اور استقامت کے بغیر ممکن نہیں تھا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی مدد یا خاطرخواہ توجہ حاصل کر سکتا۔ سیلاب زدہ ملک کے دورے کے دوران انتونیو گوتریس نے کہا کہ انہوں نے اپنے آبائی ملک پرتگال سے تین گنا بڑا علاقہ پانی میں ڈوبتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ وزیر خارجہ نے یو این ایس جی کے ہمراہ سیلاب سے متاثرہ موہن جودڑو کا دورہ کیا تاکہ متاثرین سیلاب کی مشکلات کو اُجاگر کیا جاسکے۔ اس دورے کی اہمیت کو محض بلٹ پوائنٹس کی فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پاکستانی عوام نے نہ صرف توجہ حاصل کی بلکہ عزت بھی حاصل کی۔ اپنے دورے کے دوران انتونیو گوتریس نے متاثرین اور امدادی کارکنوں سے بالمشافہ بات چیت کی اور انہوں نے سیلاب سے نمٹنے کے غیر متزلزل عزم کا قریب سے مشاہدہ بھی کیا۔ گزشتہ ستمبر میں ولسن سنٹر کے دورے کے دوران وزیر خزانہ بلاول بھٹو زرداری نے آب و ہوا سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا تھا اور اِس سلسلے میں پاکستان کو دنیا کے سامنے ایک ’ٹیسٹ کیس (مثال)‘ کے طور پر پیش کرکے کیا گیا اور یہ حکمت عملی کامیاب رہی جس کی بدولت بین الاقوامی برادری نے پانی میں ڈوبے ہوئے ملک اور اس کے باشندوں پر توجہ دی۔ پاکستان گلوبل ساؤتھ کا ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے اقدامات کا خمیازہ بھگت رہا ہے اور جب یہ بات دنیا کے سامنے رکھی گئی کہ اگر آج موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان متاثر ہے تو کل کوئی دوسرا ملک بھی اِن کا شکار ہو سکتا ہے لہٰذا ماحول کی بہتری کی کوششوں پر عالمی اتفاق رائے اور حال و مستقبل میں متاثرہ ممالک کے لئے امدادی فنڈ کا قیام عمل میں لایا جانا چاہئے۔ نتیجتاً جنیوا میں ہونے والی پاکستان کانفرنس کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی اور اِس میں پاکستان کو دس ارب ڈالر سے زائد رقم دینے کے وعدے ہوئے۔ یہ کامیابی راتوں رات حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہی صرف جذباتی تقاریر کا نتیجہ ہے بلکہ متاثرین سیلاب اور پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے حقیقی و پرخلوص کوششوں کا ثمر ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کر دیا گیا تھا اور ایک آج کا دور ہے جس میں عالمی برادری پاکستان کی مدد کر رہی ہے۔ یہ تبدیل شدہ منظرنامہ اعلیٰ سفارت کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ (مضمون نگار وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی معاون ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مشیل فاطمہ سید۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)