ورلڈ فوڈ سمٹ اُنیس سو چھیانوے میں اِس بات کی وضاحت زور دے کر کی گئی تھی ”غذائی تحفظ اس وقت ہوتا ہے جب کسی ملک کے تمام رہنے والوں کو ہر وقت‘ کافی‘ محفوظ اور غذائیت سے بھرپور غذا اور معاشی سکون (خوشحالی) حاصل ہو۔ یہ ضروریات کسی فعال و صحت مند زندگی کے لئے درکار غذائی ضروریات جیسی ترجیحات کا احاطہ کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے فوڈ سیکیورٹی کے چار اہم پہلوؤں کی وضاحت کی ہے۔ خوراک کی دستیابی کا مطلب یہ ہے کہ مناسب معیار کی خوراک کی وافر مقدار کی دستیابی جو مقامی پیداوار یا درآمدات (بشمول غذائی امداد) کے ذریعے ہو۔ خوراک تک رسائی کا مطلب غذائیت سے بھرپور غذا کے لئے مناسب وسائل کا ہونا ہے۔ خوراک کے استعمال کا مطلب مناسب غذا‘ صاف پانی‘ صفائی ستھرائی اور صحت کی دیکھ بھال کے ذریعے غذائیت کی صحت کی حالت حاصل کرنا ہے جہاں تمام جسمانی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ خوراک کے استحکام کا مطلب آبادی‘ گھر یا فرد کی ہر وقت کافی خوراک تک رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔سال 1980ء کی دہائی کے وسط میں آب و ہوا کی تبدیلی پر عالمی بحث کے آغاز کے بعد سے‘ خاص طور پر گلوبل ساؤتھ میں‘ غذائی تحفظ کے لئے آب و ہوا کی تبدیلی کے ممکنہ نتائج پر توجہ دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ اور انسانی آب و ہوا کے تغیرات کے اثرات غذائی تحفظ کی ایک یا ایک سے زیادہ اہم جہتوں کو متاثر کرنے کا باعث ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) نے 1988ء میں موسمیاتی تبدیلی کے رجحانات‘ ان کے محرکات و اثرات کم کرنے کے لئے ردعمل کا جائزہ لیا تھا اور اب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو دستاویزی شکل دی ہے۔ جس کے اہم نکات میں شامل ہے کہ آرکٹک میں سطح سمندر اور سمندر کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ساحلی علاقوں اور جزیرہ ریاستوں میں پانی بھر جاتا ہے۔ انسانی بستیوں کو نقصان پہنچتا ہے اور تازہ پانی کی کمی ہوتی ہے جس سے کاشتکاری اور ماہی گیری کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ کسانوں اور ماہی گیروں کو متبادل گھروں اور معاش کی تلاش پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اس کو آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی کہا جاتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں پاکستان کی ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کی سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے ساحلی طوفانوں اور بارشوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ زمین کے کٹاؤ اور آب و ہوا سے نقل
مکانی کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ساحلی علاقوں میں خوراک کی پیداوار‘ لائیو سٹاک سیکٹر اور ماہی گیری کو بڑے پیمانے پر نقصان (خسارے) کا سامنا ہے تاہم اِس گھمبیر مسئلے کی شدت کا درست اندازہ لگانے کے لئے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ سیلاب‘ خشک سالی‘ سمندری طوفان‘ ہیٹ ویو جیسے زیادہ دیرپا اور زیادہ شدید موسمی واقعات پانی کے کورسز اور آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے جیسا کہ بیڈ ورکس‘ بیراجوں‘ پلوں‘ ڈیموں کے ذخائر‘ جھیلوں‘ تالابوں‘ ویٹ لینڈز کے ساتھ کھڑی فصلوں اور مویشیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ ویٹ لینڈز اور مینگروو جنگلات کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران‘ شدید موسمی آفات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ سال دوہزاردس اور دوہزاربائیس میں آئے سپر فلڈز نے بڑے پیمانے پر معیشت کو نقصان پہنچایا ہے جس سے زراعت‘ خوراک اور لائیو سٹاک کا شعبہ بالخصوص پاکستان کا سب سے زیادہ کمزور معاشی شعبہ بن گیا ہے۔ 1996ء سے 2002ء کے دوران طویل خشک سالی کی وجہ سے پاکستان میں زراعت‘ خوراک اور لائیو سٹاک کے شعبوں نے مجموعی سماجی و اقتصادی ترقی پر شدید منفی اثرات مرتب کئے۔ ہمالیہ قراقرم ہندوکش پہاڑی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے ابتدائی طور پر سیلاب اور گلیشیئر جھیل کے پھٹنے سے بھی سیلاب آتے ہیں۔ گلیشیئر کے کٹاؤ کے بعد گلیشیئرز سے چلنے والے دریاؤں کو پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ دریائے سندھ کا طاس اپنے آدھے سے زیادہ آبی اثاثوں کا انحصار قراقرم گلیشیئرز پر رکھتا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے آنے والے سیلاب اور خشک سالی زمینی مٹی میں موجود زرخیزی کو خراب کرتی ہیں اور فصلوں پر کیڑوں اور دیگر بیماریوں کے حملے میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ جس سے دودھ کی پیداوار اور پولٹری کی صنعت بھی متاثر ہوتی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے تمام اثرات کا مجموعی اثر میٹھے پانی کے وسائل میں کمی کی صورت ظاہر ہوتا ہے اگرچہ اس کمی کی درست پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن کچھ مطالعات میں دریائے سندھ کے بہاؤ میں پچیس سے تیس فیصد کمی کا ذکر
ملتا ہے۔ ہمارے بنیادی طور پر گرم اور مرطوب موسم اور پاکستان کی بنیادی طور پر خشک مٹی کی وجہ سے زراعت کا مستقل آبپاشی پر انحصار ہے اور کئی علاقوں میں دوسو سے دوسو نوے سینٹی میٹر کی انتہائی کم اوسط سالانہ بارش ہوتی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے لئے ہماری خوراک کی پیداوار اور سلامتی شدید خطرات سے دوچار ہے۔
پاکستان کی غذائی سلامتی و غذائی تحفظ کو لاحق خطرات کے بارے میں کئی مطالعات موجود ہیں جو آب و ہوا کی تبدیلی اور فصل کی پیداوار میں قریب نصف کمی کا ذکر کرتے ہیں۔ اقتصادی ترقی اور غربت کے خاتمے کے اقدامات موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے واقعات جیسا کہ سپر فلڈز کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی صورت بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی‘ ترقی اور خصوصی اقدامات کی جانب سے اکتوبر 2022ء میں شائع ہونے والی اور حکومت پاکستان کی وزارتوں کی جانب سے ایشیائی ترقیاتی بینک‘ عالمی بینک‘ یورپی یونین اور یو این ڈی پی کے تعاون سے اقوام متحدہ کی مرتب کردہ ”پاکستان سیلاب 2022ء: آفات کے بعد کی ضروریات کا جائزہ“ نامی رپورٹ جون اگست کے سپر فلڈز سے متعلق ہے۔ اِس رپورٹ میں شعبہ وار ہوئے نقصانات کو جامع طور پر بیان کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح میں سیلاب کی وجہ سے 3.7 فیصد بڑھ کر 4 فیصد ہو چکی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سیلاب سے پہلے84 لاکھ افراد غربت کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے اور سیلاب کے بعد اِن افراد کی تعداد 91 لاکھ ہو چکی ہے۔سیلاب سے زراعت‘ خوراک‘ لائیو سٹاک اور ماہی گیری کے شعبے کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ 800ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ مجموعی نقصانات کا تخمینہ 1986 ارب روپے ہے۔ زراعت‘ خوراک اور ماہی گیری سے ہونے والے نقصانات کل کا 24.99 فیصد جبکہ کل نقصانات 60.68فیصد ہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک‘ انفراسٹرکچر بینک آف چائنا کے ساتھ ساتھ دوست حکومتوں کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ برادریوں اور معاشی شعبوں اور انفراسٹرکچر کے لئے فراخدلانہ منصوبوں کی مالی اعانت کا وعدہ کیا گیا ہے جس سے ہمارے زراعت‘ خوراک اور لائیو سٹاک کے شعبے کے لئے بڑے پیمانے پر تعمیر نو اور بحالی کی امید پیدا ہوئی ہے۔ (مضمون نگار ریٹائرڈ سفیر اور اقوام متحدہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: شفقت کاکاخیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)