لطیف لالہ کی یاد میں 

ایڈوکیٹ لطیف آفریدی کے قتل سے ترقی پسند اور جمہوریت پسند اہم رہنما اور انسان دوست شخصیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ وہ ایک قابل ذکر شخصیت اور معلم تھے جن کی رحلت پر اُنہیں خراج تحسین پیش کرنے یا اپنے درد کو الفاظ میں بیان کرنے کے لئے مناسب الفاظ تلاش کرنا مشکل ہے۔ ایک ترقی پسند مارکسسٹ لطیف لالہ نے ناانصافی کے خلاف جدوجہد جیسے سادہ اصول پر یقین رکھا اور اپنی پوری زندگی اِسی یقین کے تحت بسر کی۔ اُنہوں نے ہر قسم کے سیاسی و غیرسیاسی حالات کا سامنا کیا اور توقع سے کہیں زیادہ کامیابی حاصل کی جو رہتی دنیا تک مثال رہے گی۔ افغانستان اور افغانستان سے جڑے پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقے جہاں پختونوں کی اکثریت آباد ہے سے متعلق ’اسٹریٹجک پالیسیوں‘ کا قانونی ہتھیار سے مقابلہ کرنے والے اگرچہ وہ تن تنہا مجاہد نہیں تھے لیکن اُنہوں نے اپنے اور مقصد کو دیگر ترجیحات پر ہمیشہ مقدم رکھا۔ اُنہوں نے جبری گمشدگیوں کا معاملہ اٹھایا سابقہ فاٹا کے سیاسی حقوق کے لئے لڑے۔ پختونخوا میں دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے حوالے سے پالیسیوں کا جواب دیا اور اُنہوں نے ہمیشہ جمہوری اصولوں کی پیروی کی اُنہوں نے قومی وسائل پر قبضے اور انسانی حقوق کے خلاف سنگین ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ لطیف لالہ بے آوازوں کی ایک مضبوط آواز تھے۔ جہاں دوسرے لوگ مشکل راستے پر چلنے سے ڈرتے تھے‘ وہاں لطیف لالہ طاقتوروں کے ظلم و ستم یا انفرادی آزادی یا قانون کی حکمرانی کے دفاع کے لئے ڈٹ کر کھڑے نظر آتے تھے۔ اُنہیں اپنی اِس جدوجہد میں درپیش خطرات کی کبھی بھی پرواہ نہیں رہی کیونکہ وہ نتائج سے بخوبی آگاہ رہتے تھے لیکن اُن کی طبیعت میں ایک خاص قسم کا ٹھہراؤ اور تحمل پایا جاتا تھا۔ وہ تمام زندگی ہمت و محنت کی علامت رہے۔ شدید دباؤ کے باوجود بھی وہ ایک خاص مشکل وقت میں راقم الحروف کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہے اور عدالت میں راقم الحروف و دیگر کی نمائندگی کرنے والے وکلأ کے پینل کی قیادت کی۔ پاکستان کے عام افراتفری والے سیاسی منظر نامے میں ایک ترقی پسند اور لبرل آواز پیش کرنے کی ہماری جستجو میں انہوں نے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کی بنیاد رکھنے میں مدد کی۔ مرحوم لطیف لالہ چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے تک پاکستان کے قومی منظرنامے کا حصہ رہے اور ایسے ہزاروں لوگ ہوں گے جنہوں نے اُن کی دیکھا دیکھی وکالت کے جرات مندانہ کیریئر کا انتخاب کیا۔ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں ان کے ساتھ میری ابتدائی سیاسی مصروفیت سے لے کر ان کے چیمبر میں میری اپرنٹس شپ تک اور بعدازاں ’این ڈی ایم‘ کے قیام تک لطیف لالہ رہنمائی کا ایک نہ ختم ہونے والا ذریعہ تھے اگرچہ انہوں نے ’این ڈی ایم‘ کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن انہوں نے پارٹی کی قیادت کے لئے مجھ پر اعتماد کیا۔ اُن کی شخصیت کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ وکلأ‘ سیاست دانوں‘ قوم پرستوں‘ سماجی کارکنوں‘ ترقی پسندوں اور نوجوانوں کی ایک نسل کو متاثر کرتے ہوئے لالہ کو تمام سیاسی تقسیم سے بالاتر ہوکر بے پناہ احترام حاصل رہا۔ جہاں دنیا لطیف لالہ کو اُن کی بلند و بالا شخصیت اور قانونی سمجھ بوجھ کی وجہ سے یاد کر رہی ہے‘ وہیں اُن کی شخصیت میں سادگی‘ اپنی ثقافت سے پیار اور سیروتفریح کا شوق بھی یاد کیا جا رہا ہے۔ وہ ہمیشہ فنکاروں اور اداکاروں کا احترام کرتے تھے۔ مجھے ایک ایسا شخص یاد ہے جو ہمیشہ کتابوں میں مشغول رہتا تھا اور جس کی شخصیت میں ذہانت کا حیرت انگیز امتزاج و احساس موجود تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے لئے سخاوت کے لئے مشہور تھا۔ مجھے ایک کرشماتی قد آور شخصیت یاد ہے جس نے ہمیشہ اپنے سامعین کو محظوظ رکھا۔ قانونی اور سیاسی معاملات پر اپنی ماہرانہ رائے کے لئے مشہور‘ ملک میں سیاسی‘ قانونی اور علاقائی پیش رفتوں کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنے کے لئے نوجوان سیاست دانوں‘ کارکنوں‘ وکلأ اور دیگر لوگوں کی طرف سے ان سے اکثر مشورہ کیا جاتا تھا۔ جب ہم سب سے زیادہ سمجھدار‘ جرأت مند اور انتہائی اچھے انسانوں میں سے ایک کی موت پر دکھ اور صدمے کا اظہار کر رہے ہیں‘ تو ہمیں اپنے آپ سے ایک بنیادی سوال پوچھنا چاہئے کہ  کیا جمہوریت‘ قانون کی حکمرانی‘ تشدد و دہشت گردی سے آزادی کے اصولوں کے مطابق ایک ترقی پسند اور جمہوری معاشرے کی تعمیر ہونی چاہئے اور اِس سلسلے میں ہم میں سے ہر ایک کو کیا کردار ادا کرنا چاہئے؟ لطیف لالہ نے عمر بھر کی جدوجہد سے جو مثال قائم کی ہے اُسے آگے بڑھانا ہم پر فرض ہے۔ مظلوموں کے لئے کھڑے ہونا۔ قانون کی حکمرانی سے رہنمائی حاصل کرنا۔ قانون کے مقابلے ذاتی خواہشات سے کنارہ کش رہنا۔ جمہوری نظریات کی طاقت اور اِن دونوں کے درمیان فرق کو کبھی بھی نظر انداز نہ کرنا۔ یہ سب وہ اصول ہیں جن سے انسانی حقوق کا تحفظ ممکن ہے اور اِس سے عام آدمی کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ لطیف لالہ ایک ایسے بدقسمت وقت میں رخصت ہوئے ہیں جب پختون علاقے نئے اور بھڑکتے ہوئے تنازعے کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ایسے وقت میں لطیف لالہ کی جرأت مندانہ آواز کو یاد کیا جائے گا انہوں نے ثابت کیا کہ ناانصافی کے خلاف لڑنے میں عزت ہے۔ لالہ کو ہمیشہ انسانی حقوق کے حصول‘ جمہوریت اور آئین پسندی پر ان کے پختہ یقین اور بے آوازوں کے لئے بلند آواز بننے کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔(مضمون نگار رکن قومی اسمبلی ہیں۔بشکریہ: دی نیوز‘ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)