ملک کو درپیش توانائی بحران کا تقاضا یہ ہے کہ صارفین خود کو حالات کے مطابق ڈھالیں اور توانائی کا دانشمندانہ استعمال کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ ہم توانائی کے تحفظ کے مالیاتی و معاشی پہلوؤں پر زور دیں‘ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ توانائی کے بحران انتظامی نہیں ہے بلکہ یہ اصل میں ایک نئے عالمی نظام کا حصہ ہے جس پر پاکستان کو بھی بہرصورت عمل کرنا ہوگا۔ پائیدار معاشروں کی تشکیل کے لئے اپنی تمام شکلوں میں توانائی کا تحفظ واحد صحت مند طرز زندگی کا حل ہے۔لہٰذا توانائی کے تحفظ کا روڈ میپ صحیح سمت میں اٹھایا گیا اقدام ہوگا۔ اسے صرف ایک اور تحفظ مہم کے طور پر متعارف نہیں کرایا جا رہا بلکہ نتائج کا تخمینہ لگانے کے لئے تحقیق اور اعداد و شمار کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی ٹیم پہلے ہی گیس کے تحفظ کے لئے خاطر خواہ پیش رفت کر چکی ہے۔ وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک پہلے ہی مواصلاتی مہمات کے ذریعے گیس تحفظ آلات کے استعمال پر زور دے رہے ہیں۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے تمام گھروں کے لئے گیزر میں ’مخروطی بیفلز‘ نامی آلہ لگانے کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ سوئی ناردرن گیس کمپنی یہ انرجی سیور ڈیوائس نصب کر رہی ہے جس سے صارفین کو توانائی کی بچت میں مدد مل سکتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پیٹرولیم ڈویژن عوام میں توانائی بچت سے متعلق شعور اُجاگر کرنے کے لئے سوشل میڈیا وسائل کا استعمال کر رہا ہے اور اِس سلسلے میں ’ٹک ٹاک‘ سمیت سوشل میڈیا کی دیگر ایپلی کیشنز کے ذریعے صارفین سے رابطہ کیا گیا ہے۔ اِس طرح کے اقدامات سے بالخصوص نوجوانوں میں توانائی کے تحفظ کا
احساس اور عادت پیدا کرنے میں مدد ملے گی اور یہ ایک ذہین حکمت عملی ہے۔ کرکٹ سٹارز‘ رول ماڈلز اور انفلوئنسرز کے ذریعے توانائی کے تحفظ کی عادات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر کام کرنے والے معماروں (بلڈرز) کو بھی توانائی تحفظ کی کوششوں میں شریک کرنا چاہئے تاکہ اِس بنیادی مقصد کے حصول کے لئے تحریک پیدا کی جا سکے کہ گھروں کی تعمیر میں قدرتی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔ ڈبل گلیزڈ کھڑکیوں کا استعمال کیا جائے جن کی مدد سے موسم گرما اور موسم سرما میں توانائی کی بچت میں مدد مل سکتی ہے۔
حکومت پانی کے تحفظ سے متعلق بھی شعور میں اضافہ کر رہی ہے اور اِس سلسلے میں عالمی رہنماؤں نے کامیابی کے ساتھ غذائی تحفظ کو قومی اور عالمی سلامتی کے طور پر ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ حکومتوں اور سربراہان مملکت کو آبی تحفظ کے فراموش تصور کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بہت بڑا مسئلہ جو کہ ترقی یافتہ اور پسماندہ دنیا کو بالخصوص متاثر کئے ہوئے ہے اور یہ ایک عالمی بحران کا بھی موجب ہے وہ پانی کے دانشمندانہ استعمال سے متعلق ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پانی کے تحفظ اور پانی کے دوبارہ استعمال اور اِسے محفوظ استعمال کے بارے میں بہت ہی کم عملی کوششیں کی جاتی ہیں۔ وفاقی حکومت توانائی کے تحفظ کی مہم کے لئے صوبائی حکومتوں کے ساتھ تعاون کرے تو صورتحال کی تبدیلی ممکن ہے۔ پانی کی بچت کے لئے صوبائی حکومتوں کے ساتھ اشتراک عمل سے روڈ میپ تیار کرنا ہوگا۔ بلوچستان میں صوبائی سیکرٹری اطلاعات حمزہ شفقت نے پانی کے غلط استعمال کے خاتمے اور منصفانہ استعمال کو فروغ دینے کے لئے پانی کے تحفظ سے متعلق آگاہی کی متعدد مہمات شروع کی ہیں۔ بلوچستان میں پانی کی حفاظت کو فروغ دینے کی مہم ایک قومی ایکشن پلان میں تبدیل ہوسکتی ہے کیونکہ یہ معاملہ ہماری آنے والی نسلوں سے متعلق ہے۔ بلوچستان کی طرح واٹر کمیشن کی ہدایات و سفارشات پر پنجاب حکومت نے لاہور میں آبی تحفظ کے متعدد اقدامات متعارف کئے ہیں۔ شہریوں کو شعور دیا جا رہا ہے کہ وہ کم سے کم پانی استعمال کریں تاکہ پانی آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کیا جا سکے۔ اگر شعور پیدا کیا جائے تو طرز عمل میں تبدیلی ممکن ہے۔ پانی‘ بجلی و گیس کی بچت (کم سے کم استعمال) سے متعلق عوام کے رویئے تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن اگر اُنہیں منطقی انداز میں سمجھایا جائے اور تحفظ ماحول کے فوائد بیان کئے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہی علاقوں میں زیرزمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے جسے مزید گرنے (کم ہونے) سے روکنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ پانی ایک بنیادی ضرورت ہے اوراس کی حفاظت و کفایت شعاری کے ساتھ استعمال ضروری ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: اینم علی عباس۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)