ای کامرس: ترقی اور مستقبل

کورونا مرض کے ابتدائی ایام نے ہمارے طرز زندگی میں بہت سی نمایاں تبدیلیاں متعارف کروائیں‘ جس سے کاروبار و معمولات زندگی کو نئے زوایئے سے دیکھنا بھی شامل ہے۔ اس قدرتی آفت کے پہلے دو ہنگامہ خیز سالوں کے دوران‘ لوگوں کی نقل و حرکت بہت محدود رہی‘ جس نے انہیں متبادل طرز زندگی اپنانے پر مجبور کیا اور اس تبدیلی کے نتیجے میں ”ای کامرس“ میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا جو اب بھی جاری ہے لیکن اگر پاکستان کا موازنہ دیگر ممالک سے کیا جائے تو ہمارے ہاں ’ڈیجیٹل مہارت‘ کی قومی سطح خاطرخواہ بلند نہیں ہوئی اور نہ ہی قومی سطح پر ’ڈیجیٹل آلات‘ کو خاطرخواہ اہمیت اور اِن کے فروغ کی خاطرخواہ ترغیب دیکھنے میں آئی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ’ڈیجیٹل خواندگی‘ میں اضافے سے روزگار کے متعدد نئے مواقع اور ذرائع کی تلاش ممکن ہے اور اِس سے قومی سطح پر پائی جانے والی بیروزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔تجارت اور ترقی سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس (یو این سی ٹی اے ڈی) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیسے جیسے کورونا وبا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن معمول بنتا گیا دنیا بھر میں کاروبار اور صارفین تیزی سے ’ڈیجیٹل‘ وسائل سے منسلک ہوتے چلے گئے۔ آن لائن سرگرمیوں میں بے مثال اضافہ دیکھنے کو ملا۔ جس سے عالمی خوردہ تجارت میں ای کامرس کا حصہ 2019ء میں 14 فیصد سے بڑھ کر 2020ء میں قریب 17فیصد ہو گیا۔ یہ اضافہ تقریبا ًہر براعظم اور خطے میں دیکھا گیا۔ یو این سی ٹی اے ڈی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاطینی امریکہ میں آن لائن مارکیٹ ایریکا نے گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 2020ء کی دوسری سہ ماہی میں روزانہ دوگنی تعداد یا مقدار میں اشیا فروخت کیں اور ایک افریقی ای کامرس پلیٹ فارم نے 2020ء کے پہلے چھ مہینوں کے دوران لین دین میں پچاس فیصد اضافے کی اطلاع دی۔ اگست 2019ء اور اگست 2020ء کے درمیان خوردہ فروخت میں چین کا آن لائن حصہ 19.4فیصد سے بڑھ کر 24.6فیصد ہوگیا۔ قازقستان میں خوردہ فروخت کا آن لائن حصہ 2019ء میں پانچ فیصد سے بڑھ کر 2020ء میں 9.4فیصد ہو گیا۔ تھائی لینڈ میں مارچ 2020ء کے دوران صرف ایک ہفتے میں شاپنگ ایپس کے ڈاؤن لوڈ میں ساٹھ فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ بہت سی حکومتوں نے ’ای کامرس‘ کی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے ڈیجیٹل مہارتوں کو فروغ دینے اور منصوبوں کا مسودہ تیار کرکے صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا کوسٹا ریکا کی حکومت نے آن لائن موجودگی کے بغیر کاروباری اداروں کے لئے ایک پلیٹ فارم شروع کیا اور زرعی‘ گوشت اور مچھلی کی مصنوعات کے پروڈیوسروں کے مابین تجارت کو آسان بنانے کے لئے سمارٹ فون ایپ اور ٹیکسٹنگ سروس شروع کی۔ افریقی ملک سینیگال نے آبادی کے تمام طبقوں میں ای کامرس کے فوائد کے بارے میں معلومات‘تعلیم اور آگاہی کی مہم چلائی۔ ایشیا میں انڈونیشیا نے مائیکرو‘ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے درمیان ڈیجیٹلائزیشن اور ڈیجیٹلائزیشن کو تیز کرنے کے لئے صلاحیت سازی کے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ ای کامرس سیکٹر نے 2020ء میں تمام خوردہ فروخت میں ’ڈرامائی‘ اضافہ دیکھا‘ جو سولہ فیصد سے بڑھ کر اُنیس فیصد ہو گیا۔ اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ ڈیجیٹل ریٹیل معیشت نے جنوبی کوریا میں سب سے زیادہ ترقی دیکھی‘ جہاں انٹرنیٹ کی فروخت 2019ء میں پانچ میں سے ایک ڈیجیٹل لین دین سے بڑھ کر پچھلے سال چار میں سے کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں اسی عرصے کے دوران آن لائن لین دین میں 15.8فیصد سے 23.3فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔ اسی طرح چین (20.7سے 24.9فیصد)‘ امریکہ (11 سے 14فیصد)‘ آسٹریلیا (6.3 سے 9.4فیصد)‘ سنگاپور (5.9 سے 11.7فیصد) اور کینیڈا (3.6فیصد سے 6.2فیصد) نے بھی ایسا ہی کیا۔ سال 2020ء میں دنیا کی 13 بڑی کمپنیوں کی آن لائن بزنس ٹو کنزیومر (بی ٹو سی) فروخت 2.9 کھرب ڈالر رہیں۔ مجموعی طور پر 2019ء میں عالمی ای کامرس کی فروخت 26.7 کھرب ڈالر تک پہنچ گئی‘ جو سالانہ چار فیصد سے زیادہ کے تناسب سے (غیرمعمولی اور مثالی) ترقی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان وبائی امراض سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے میں سست روی کا شکار ہے۔ صرف چند سرکاری اداروں نے نوجوانوں کو ڈیجیٹل مہارتوں سے آراستہ کرنے کے پروگرام شروع کئے ہیں تاکہ وہ ای کامرس اور آن لائن شاپنگ کے بڑھتے ہوئے رجحانات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ سال 2020ء میں پاکستان پاورٹی ایلیوئیشن فنڈ (پی پی اے ایف) نے نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) کے تعاون سے ری ویٹلنگ یوتھ انٹرپرائز (آر وائی ای) منصوبے کا آغاز کیا۔ اس نے سولہ سے چوبیس سال کی عمر کے نوجوانوں کو ہائی ڈیمانڈ ڈیجیٹل مہارتوں میں تربیت دی۔ تقریبا 75فیصد شرکا اٹھارہ سے چوبیس سال کی عمر کے تھے اور باقی پچیس فیصد سولہ سے اٹھارہ سال کی عمر کے تھے۔ اِس تربیتی پروگرام کے لئے کراچی‘ سکھر‘ ملتان اور بہاولپور سے تقریبا 200 مستحق غریب طلبہ کا انتخاب کیا گیا۔ طلبہ کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ‘ سوشل میڈیا مینجمنٹ‘ ای کامرس اور گرافک ڈیزائن پر مختصر کورسز کروائے گئے۔ لڑکیوں اور خواتین نے بھی اس آن لائن منصوبے میں حصہ لیا جس سے انہیں ایک قدامت پسند معاشرے میں آمدنی حاصل کرنے میں مدد ملی جہاں زیادہ تر خواتین کے لئے باہر جانا اور دفاتر اور فیکٹریوں میں کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مذکورہ تربیت دینی مدارس کے طلبہ کے لئے بھی مفید رہی۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کورس میں داخلہ لینے والے مدارس کے کئی طلبہ نے ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے وابستہ ہو کر فوری آمدنی حاصل کی۔ سال دوہزاراکیس میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 4.35 فیصد تھی جو سال 2020ء کے مقابلے میں 0.05 فیصد زیادہ ہے۔ بیروزگاری ہمارے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور (برین ڈرین)کر رہی ہے۔ یہ خبر اپنی جگہ تشویشناک ہے کہ اقتصادی مشکلات اور مہنگائی کی وجہ سے کاروباری لاگت میں اضافے کے باعث ٹیکسٹائل کے شعبے میں تقریبا ساٹھ لاکھ افراد کو ملازمتوں سے فارغ کیا جا چکا ہے۔ اعلیٰ درجے کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے گریجویٹس سے لے کر دینی مدارس کے طالب علموں کی بھاری اکثریت تک‘ زیادہ تر لوگ روزگار کی تلاش میں ہیں لیکن اِن کی اکثریت روزگار حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ پاکستان میں چھتیس ہزار سے زیادہ رجسٹرڈ مدارس ہیں جہاں بیس لاکھ سے زیادہ طالب علم ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کے پاس ملک کی جاب مارکیٹ میں ملازمتی موقع تلاش کرنے کے لئے ضروری مہارت نہیں۔ قومی سطح پر ڈیجیٹل مہارت کے منصوبے ایسے نوجوانوں کے لئے آمدنی کے باوقار اور پائیدار ذرائع تلاش کرنے کا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ قومی فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ وہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم پر نظرثانی کریں اور نصابی کتب (تھیوری) کی موٹی کتابوں کا مطالعہ کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے طلبہ کو عملی تعلیم دیں۔ عملی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے مخصوص تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں جہاں پیشہ ورانہ زندگی سے متعلق امور و علوم کی تربیت دی جانی چاہئے کون نہیں جانتا کہ ڈیجیٹل دنیا مسلسل پھیل رہی ہے اور پاکستان کو ’ای کامرس‘ اور ’ڈیجیٹل مارکیٹنگ‘ کے اِس پھیلتے نظام و رجحانات میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے لئے بروقت اقدامات کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالستار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)