موسمیاتی تبدیلیاں: ابلاغ عامہ

غیر روایتی خطرات کے اُبھرنے نے علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کے لئے متعدد چیلنجز پیدا کئے ہیں۔ آب و ہوا کی اِس تبدیلی نے مواصلات کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے تاکہ آب و ہوا سے متعلق حقائق‘ پیغامات‘ اقدامات اور پالیسیوں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اُجاگر کیا جائے۔ ابلاغ کے ماہر ’جیمز فارویل‘ سٹریٹجک مواصلات کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”مفادات یا پالیسیوں کو آگے بڑھانے یا اِن سے متعلق مقاصد کے حصول کے لئے ہدف سامعین ہوتے ہیں جن کے روئیوں اور رائے پر اثر انداز ہونے کے لئے الفاظ‘ اعمال‘ تصاویر یا علامتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ ہر چیز بات چیت کرتی ہے تو ریاست کے الفاظ‘ اقدامات اور تصاویر سب کوئی نہ کوئی پیغام لے کر جاتے ہیں اور ناظرین کے قومی اور بین الاقوامی تصورات‘ فیصلہ سازی اور کسی خاص بحران یا آفت کے ردعمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سامعین کا ردعمل‘ قومی حکمت عملی اور سٹریٹجک مقاصد کو متاثر کرتا ہے۔ سٹریٹجک مقاصد کے مطابق حکومت کے تمام متعلقہ شعبوں کی مربوط کوششوں کی بنیاد پر مواصلات کے بارے میں سٹریٹجک نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ”سٹریٹجک مواصلات“ کی اصطلاح ”میڈیا مواصلات“ سے مختلف ہے۔ سٹریٹجک معلومات زیادہ وسیع ہوتی ہیں اِس لئے عمومی حکمت عملی کے مقابلے موسمیاتی (آب و ہوا) تبدیلی سے متعلق نکتہئ نظر کو ”سٹریٹجک بیانیہ“ کا حصہ ہونا چاہئے۔ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے شعبہئ تاریخ کے پروفیسر بیٹریس ڈی گراف نے وضاحت کی ہے کہ ”سٹریٹجک بیانیہ“ سیاسی اشرافیہ کی طرف سے ڈیزائن کیا جاتا ہے جس کا مقصد کسی خاص احساس یا رائے کو اُجاگر کرنا ہوتا ہے تاکہ مختلف پالیسی اقدامات کے بارے میں عوام کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق قومی بیانیے میں یہ بات شامل ہونی چاہئے کہ عوام آب و ہوا میں تبدیلی کو کس نکتہئ نظر سے دیکھتے ہیں۔سال دوہزاربائیس کے سیلاب کے بعد‘ پاکستان کا موسمیاتی انصاف کا مطالبہ جو بنیادی طور پر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے تھا‘ درحقیقت سٹریٹجک بیانیہ ہے اور ایک کامیاب حکمت عملی ہے۔ دنیا کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کرنا اور آب و ہوا کے انصاف کا مطالبہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اِس سے دنیا کی توجہ ماحول کے لئے نقصاندہ گیس کے اخراج میں کمی کی جانب مبذول ہوئی ہے جبکہ سرمایہ دار ممالک پاکستان جیسے اُن ممالک کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہوئے ہیں جو اُن کے کئے ہوئے اقدامات کی سزا بھگت رہے ہیں۔ جنیوا میں اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق بین الاقوامی اجلاس (کانفرنس) نے پاکستان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ مختلف ڈونرز نے سیلاب سے متاثرہ افراد اور شعبوں کی بحالی کے لئے 10 ارب ڈالر سے زائد امداد کے وعدے کئے ہیں اگرچہ اِن وعدوں کو پورا کرنا ابھی باقی ہے لیکن پاکستان نے دنیا کو ماحولیاتی انصاف جیسے پہلو سے آشنا اور اِس عظیم مقصد کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ایک بیانیہ بنانے کے علاؤہ‘ کسی ملک کے قومی مقاصد کی تکمیل اور حمایت بھی ضروری ہوتی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی تکمیلی نوعیت کا اندازہ کرنے کے لئے دو مثالیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ ”سی او پی 27 سمٹ“ کے وائس چیئر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے پاکستان نے ’تاریخی ناانصافیوں‘ کو درست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مزید برآں وزیر اعظم شہباز شریف نے ماحولیاتی نقصانات کی تلافی اور ری شیڈولنگ جیسے الفاظ کو بجا طور پر مسترد کرتے ہوئے ماحولیاتی انصاف کا مطالبہ کیا ہے جو اپنی جگہ اہم ہے۔ موسمیاتی انصاف کے بیانیے کے لئے مذکورہ عالمی اجلاس سے پاکستان کو جو حمایت ملی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے بھی دنیا سے پاکستان کی مدد کرنے کی اپیل کی ہے اور موسمیاتی آفات سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کو ان کے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو میں مدد کے لئے عالمی مالیاتی تبدیلیوں پر زور دیا ہے۔ پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کمیونیکیشنز جیسا کہ ملک کے قومی سطح پر طے شدہ کنٹری بیوشنز 2021ء میں بیان کیا ہے‘ جو بین الاقوامی مالیات اور تعاون کے حصول اور مطالبے کا ایک مبالغہ آمیز اظہار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو سال 2030ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پچاس فیصد کمی لانے کے قومی منصوبوں کو کم کرنے اور موافقت کے اہداف پورا کرنے کے لئے بین الاقوامی مالی اعانت کی ضرورت ہے۔ ان اہداف میں کوئلے کے استعمال پر پابندی‘ 2030ء تک 60فیصد قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر انحصار اور 30فیصد برقی نقل و حمل کی طرف منتقلی شامل ہے تاکہ ’کاربن فٹ پرنٹ‘ کم کیا جا سکے اور پروٹیکٹڈ ایریاز انیشی ایٹو اور شجرکاری جیسے اقدامات بھی اِسی حکمت عملی میں شامل ہیں۔ پاکستان دنیا سے ماحول دوستی کا مطالبہ کرتا ہے تو اِسے اپنے طور پر بھی ماحول دوستی کو فروغ دینا ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر جن ترقیاتی اور امدادی اہداف کا ذکر کیا گیا ہے اُن کی کامیابی کا انحصار ملکی (پندرہ فیصد) اور بین الاقوامی (پینتیس فیصد) فنانسنگ پر ہے۔ بین الاقوامی مالی مدد کو راغب کرنے کے لئے‘ مجموعی سرمایہ کاری کے ماحول میں بہتری کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی انصاف کے بیانیے کی بنیاد پر‘ پاکستان سٹریٹجک مواصلات کے ذریعے مؤثر طریقے سے اپنا تشخص تشکیل دے سکتا ہے جو بین الاقوامی مالیات کے لئے اِس کی مدد کرے گا۔ وزیر اعظم نے یقین دلایا ہے کہ ہم جنیوا کانفرنس میں وعدہ کردہ بین الاقوامی مالی امداد کو شفاف طریقے سے استعمال کریں گے۔پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی سال دوہزاربائیس سے دوہزار چھبیس تشکیل شدہ ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی کم جامع تعریف پر مبنی ہے۔ انسانی سلامتی کے دائرے میں‘ آب و ہوا کی حفاظت کے ساتھ آب و ہوا کی تبدیلی پر  بھی زور دیا جاتا ہے۔ اس سے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے صحت اور صنفی تحفظ‘ نقل مکانی اور غذائی تحفظ جیسے پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات دیکھے جائیں گے۔ مذکورہ پالیسی سے اِن جہتوں کو خارج کرنا قومی سطح پر آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کی وسعت کے بارے میں توقعات اور تعریف کی کمی کا عکاس ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لئے مخلوط حکومت نے نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سنٹر (این ایف آر سی سی) قائم کیا ہے تاکہ ریاستی محکموں اور ایجنسیوں (قومی اور بین الاقوامی) کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بنایا جاسکے اور سیلاب سے نمٹنے اور بحالی کی تیاری کی جاسکے۔ یہ کوآرڈینیشن اپنی جگہ اہم و ضروری ہے۔ اِن کوششوں کو آگے بڑھانے کے لئے حکومت نے لچکدار بحالی اور تعمیر نو کے فریم ورک (آر فور ایف) تیار کیا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی اور اِس کے اثرات کم کرنا حکومت اور عوام کے درمیان رابطوں پر منحصر ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے پیغام رسانی میں سائنسی معلومات شامل ہوتی ہیں جن کے لئے سائنسدان حقائق اور اعداد و شمار پیش کرتے ہیں جو ابلاغ عامہ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں تاہم سائنس دانوں کی تحقیق کو عام آدمی تک پہنچانا اور اُسے سمجھنا ایک مشکل کام ہے۔ اِس سلسلے میں کورونا وبا اور انسداد پولیو سے متعلق ابلاغی کوششوں کے نتائج دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں ایک غیرسائنسی انداز میں ملک گیر مواصلاتی مہم کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو ان کی کمزوریوں اور انتظام کرنے کے طریقوں سے آگاہ کیا جاسکے۔ اس کے لئے میڈیا کی استعداد کار میں اضافہ اور پاکستان میں موسمیاتی رابطوں کو بہتر بنانے کے لئے ریسرچ پول بنانا ضروری ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر سلمیٰ شاہین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)