انتخابی نتائج: عدم اطمینان

کراچی سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں ہوئے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے متعلق سیاسی جماعتوں کا نکتہئ نظر اپنی جگہ اہم لیکن سوشل میڈیا پر اظہار خیال کرنے والوں کا مؤقف بھی توجہ طلب ہے‘ جو اپنی قیام گاہوں‘ دفاتر یا چلتے پھرتے ایسے پہلوؤں‘ خامیوں یا کمی بیشیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں جن کا تعلق کسی ایک ضلع یا صوبائی انتخابی نظام سے نہیں بلکہ بالعموم انتخابی قواعد کی تشکیل پر سختی سے اور بلاامتیاز عمل درآمد سے ہے۔ الیکشن کمیشن آئینی طور پر خودمختار ادارہ ہے تاہم عوام کی نظروں میں اِس کی ساکھ اور غیرجانبداری مشکوک نظر آ رہی ہے۔ اگر ہم پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے رجحانات دیکھیں تو بلدیاتی انتخابات کا موضوع قومی و صوبائی ذرائع ابلاغ (مین سٹریم پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) کے علاؤہ بحث و مباحثے کے دیگر ذرائع پر زیادہ مقبول دکھائی دے رہا ہے جبکہ ’مین سٹریم پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا‘ میں اکثر ’فوری نوعیت‘ کے معاملات پر تبادلہئ خیال ہوتا ہے۔ ’ٹوئیٹر اسپیس‘ نامی سہولت سے کسی ایک موضوع پر لاتعداد افراد (ٹوئیٹر صارفین) اظہار خیال کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مباحث (ٹوئیٹر اسپیس نشست) میں میں شریک ایک مقرر کی جانب سے سوال مدعا اٹھایا گیا کہ ”مقامی حکومتیں معاشرے میں نچلی سطح تک سرایت کی ہوئی بدامنی اور عدم اطمینان ختم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہیں؟“ سمجھنے لائق ہے کہ عوام میں پایا جانے والا عدم اطمینان صرف بنیادی حقوق اور خدمات کی عدم فراہمی کے باعث نہیں بلکہ اقتصادی صورتحال اور بیروزگار نوجوانوں کی ملکی تاریخ میں سب سے بڑی تعداد کی وجہ سے بھی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور بگڑتے ہوئے معاشی‘ سماجی اور انسانی حالات کی وجہ سے عوامی عدم اطمینان میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا حتمی نتیجہ بدامنی کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں بلوچستان کی مثال دیکھی جا سکتی ہے جہاں سال دوہزارچھ سے حکومتیں تو بدل رہی ہیں لیکن اس کے باوجود پرتشدد واقعات میں کمی نہیں آرہی ہے۔ یہ نکتہ پہلے بھی اٹھایا جاچکا ہے کہ بدامنی کے خاتمے میں قبائلی سرداروں کی بجائے نوجوانوں کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلوچستان اور دیگر صوبوں میں بظاہر یہ مسائل سیاسی جماعتوں کے لئے زیادہ پریشان کن نہیں کیونکہ وہ اقتدار کو تقسیم یا صوبائی حکومتوں سے زیادہ کسی دوسری شے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتیں۔ سندھ کی بات کریں تو بالخصوص کراچی جیسے آبادی کے بڑے مرکز (مرکزی شہر) میں کمزور بلدیاتی قانون بنایا گیا‘ اِسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی کمزور بلدیاتی حکومتیں قائم ہوئیں جبکہ پنجاب میں سال دوہزاراٹھارہ سے بلدیاتی انتخابات تاخیر کا شکار ہیں۔ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں یا پھر وہ جماعتیں ملکی سیاست میں متحرک ہیں انہیں نچلی سطح سے عوامی دباؤکا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن سیاسی و بلدیاتی نظام چونکہ عوامی توقعات پر پورا نہیں اُتر رہا‘ اِس لئے ”بڑھتا ہوا عدم اطمینان“ ایک جائز عوامی ردعمل ہے۔ٹوئیٹر اسپیس پر بات چیت کرتے ہوئے ایک نوجوان سیاست دان کی جانب سے نکتہ اٹھایا گیا کہ ”صحافیوں کی توجہ وفاقی سطح پر موروثی سیاست اور سیاسی جماعتوں کی اندرونی جمہوری فیصلہ سازی یا اس کے اثرات پر مرکوز ہے جبکہ مقامی سطح پر بھی لوگوں میں اس رجحان کے خلاف ناراضگی پائی جاتی ہے۔ مختلف بلدیاتی حلقوں میں بھی موروثی سیاست دیکھی جا سکتی ہے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے دیرینہ کارکن ’پارٹی ٹکٹ‘ نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں اور صرف بلدیاتی ہی نہیں بلکہ صوبائی یا قومی انتخابات میں حصہ نہیں لے پاتے۔ درحقیقت انتخابی حلقوں کی سطح پر ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی اراکین نے انتخابی عمل میں آزاد حیثیت سے حصہ لیا۔ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ مزید امیدواروں کو مقابلے میں شامل کریں۔ بصورت ِدیگر عوامی تناؤ سے سیاسی جماعتیں کمزور ہوں گی اور ان کی انتخابی جیت کے امکانات بھی کم ہوتے چلے جائیں گے۔ اگر سیاسی جماعتیں کارکنوں کے اعتماد پر پورا اُترتے ہوئے چیلنجز سے نمٹنا چاہتی ہیں تو انہیں تنگ نظری کی سیاست ترک کرنا ہوگی۔ جہاں تک کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات کی بات ہے تو جماعت ِاسلامی نے خود کو ایسی جماعت کے طور پر دوبارہ متعارف کروایا ہے جو کراچی کے مقامی‘ بنیادی و دیرینہ مسائل (سیوریج‘ پانی اور بجلی کے بلوں) سے متعلق عوام کی مدد کرنا چاہتی ہے۔ کراچی میں جماعت ِاسلامی کی کامیاب انتخابی مہم توجہ طلب تھی کیونکہ اِس دوران عام ووٹر کو صرف بنیادی خدمات کی فراہمی سے متعلق تذکرے سے متوجہ کیا گیا اور کامیابی حاصل کی۔ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی جماعت اسلامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ریاست اور معاشرے کو آگے بڑھنے کے لئے عوامی مسائل کے حل کا راستہ اپنانا چاہئے۔اٹھارہویں آئینی ترمیم (صوبائی خودمختاری) درست اقدام تھا لیکن اس کی کامیابی پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی اور اب یہ معاملہ صوبائی سطح پر جاگیرداری کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ وقت ہے کہ عملی اقدامات کئے جائیں اور مرکزی قوت کے اُن تمام ڈھانچوں کو مسمار کیا جائے جو نچلی سطح پر اقتدار کی منتقلی نہیں دیکھنا چاہتے۔ درحقیقت جمہوریت فعال بلدیاتی نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عارفہ نور۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)