تعلیمی اصلاحات

عالمی سطح پر تعلیم کے شعبے میں خدمات کی فراہمی کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے اصلاحات کی جا رہی ہیں لیکن ان پرجوش اہداف اور اصلاحات کے لئے قابل عمل حکمت ِعملی‘ پیچیدہ اور کثیر الجہتی بیوروکریٹک نظام کے ذریعے موثر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد ماڈل کالجوں اور کیڈٹ کالجوں کے ڈلیوری میکانزم  کے موازنے میں دیکھا گیا کہ  اپنے متعلقہ اہداف کے حصول میں ہر سٹریم کی کارکردگی کیا ہے‘ دونوں سٹریمز کس طرح اپنے اہداف اور ترجیحات کا تعین کر رہے ہیں اور کس طرح پیمائش و نگرانی‘ احتساب و حوصلہ افزائی مسائل حل کرنے اور منظم انتظامی معمولات (امور) پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ بنیادی  عنصر جس کی طرف یہاں اشارہ کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم کی فراہمی کا نظام جتنا مضبوط (عملاً فعال و بہتر) ہوگا‘ بچوں کی بنیادی صلاحیتوں میں بھی اُسی قدر بہتری آئے گی جبکہ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ماڈل کالج انتظامی اور نگران ڈھانچے کی صورت مختلف مراحل پر مبنی ہیں اور اِن مراحل میں ایک سے زیادہ منتظم محکمے شامل ہیں۔ یہ بڑی انتظامی زنجیر تعلیمی نظام کو خاطرخواہ آگے بڑھنے نہیں دے رہی۔ دوسری طرف کیڈٹ کالجز موجود ہیں جن کی تعداد کم ہے لیکن اُن کے انتظامات نسبتاً بہت بہتر ہیں۔ یہ کیڈٹ کالجز بورڈ آف گورنرز کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں جو ایک کامیاب تجربہ ہے اور کامیابیاں متقاضی ہیں کہ کیڈٹ کالجز کی طرح دیگر تعلیمی اداروں کو بھی چلایا جائے۔ اہداف کے تعین کے حوالے سے دونوں شعبوں نے قومی تعلیمی پالیسی یا منصوبہ بندی کے مطابق الگ الگ اہداف ہیں۔ ماڈل کالجوں کے لئے فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (ایف ڈی ای) قومی تعلیمی اہداف کو محدود کئے ہوئے ہے جبکہ کیڈٹ کالجوں کے معاملے میں‘ بورڈ آف گورنرز قومی پالیسی کی روشنی میں سٹریٹجک اہداف کا تعین اور اِس حوالے سے فیصلے کرتے ہیں جو فوری نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ بورڈ اجلاسوں کے دوران‘ ادارہ جاتی اہداف اور کلیدی اہداف کے مطابق حکمت عملی بنائی جاتی ہے اور ایسے فیصلہ کئے جاتے ہیں جو وقت کے ساتھ اہم ہوتے ہیں۔ بورڈ آف گورنرز کے فیصلوں پر عمل درآمد پرنسپل اور وائس پرنسپل کی ذمہ داری ہوتی ہے۔کیڈٹ کالج تعلیمی شعبے میں ادارہ جاتی خودمختاری اور غیر مرکزی حکمرانی کی بہترین مثالیں ہیں کیونکہ وہ تعلیم کے بہتر معیار مطابقت پذیری‘ فیصلوں میں لچکدار‘  زیادہ تجرباتی اور جدت طرازی رکھتے ہیں اور خاص حالات و واقعات سے الگ ہو کر سوچتے ہیں۔ ماڈل کالجوں کے مقابلے میں حکومت کی جانب سے کم فنڈز ملنے کے باوجود کیڈٹ کالجز اپنے وسائل سے لاگت کا بوجھ اُٹھاتے ہیں اور اپنے طور پر وسائل جمع کرتے ہیں۔ اِس کارکردگی اور حکمت عملی کا دیگر سرکاری کالجوں میں بھی تجربہ ہونا چاہئے۔ کیڈٹ کالجز جدید علوم سیکھنے اور ہنر مندی کے فروغ جیسے تصورات میں نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کے سابق طالب علموں کو سرپرستی کے لحاظ سے ادارے کو ٹھوس اور غیر معمولی حمایت حاصل کرنے کے لئے مشغول اور استعمال کیا جاتا ہے اور یہ بہتر اہل کار کے طور پر اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ کیڈٹ کالجوں کے اساتذہ بہتر تربیت رکھتے ہیں اور یہ طلبہ کی شخصیت سازی و ادارے کی مجموعی ترقی کے بارے میں زیادہ توجہات و وسائل مرکوز رکھتے ہیں۔ ماڈل کالجوں کی کارکردگی کے نقطہ نظر سے جب ہم سرکاری کالجوں کی کارکردگی کو دیکھتے ہیں تو اِس میں کئی کمزوریاں دکھائی دیتی ہیں۔ جیسا کہ سرکاری کالجز حکومت کے لئے نسبتا مہنگے ثابت ہو رہے ہیں اور اِن کی کارکردگی و معیار بھی خاطرخواہ تسلی بخش نہیں۔ اکیسویں صدی میں سیکھنے یا کسی مہارت کے حاصل کرنے میں سرکاری کالجز پیچھے دکھائی دیتے ہیں اور اِن کے ہاں اساتذہ کی تربیت بھی خاطرخواہ عالمی معیار کے مطابق نہیں ہوتی۔ سرکاری کالجز کے فیصلے بھی بیوروکریٹک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیمی نتائج متاثر ہوتے ہیں۔ ماڈل کالجوں کی کارکردگی کچھ مثبت پہلو ہیں۔ حال ہی میں‘ ایف ڈی ای نے چند قابل ستائش اقدامات کئے ہیں۔ ان میں ہیومن ریسورس مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ایچ آر ایم آئی ایس) جیسے اقدامات کے ذریعے طلبہ کے کوائف (ڈیٹا) اور مانیٹرنگ سسٹم میں تبدیلی شامل ہے۔ ماڈل کالجز میں اعداد و شمار کی شفافیت بھی نسبتاً بہتر ہوتی ہے اور یہ صارفین سے کم وصولی کرتے ہیں لیکن اگر تعلیم کا معیار بہتر بنا لیا جائے اور انتظامی امور و فیصلہ سازی میں شفافیت غالب ہو تو سرکاری و ماڈل کالجز بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ایم جہانگیر خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)