اسلام آباد:پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 3 کروڑ 3 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے،ہرچوتھا پاکستانی نوجوان ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے۔
ماہرین کے مطابق بعض افراد میں جب ذیابیطس کی تشخیص ہوتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ پرہیز کے حوالے سے یہ صرف ریفائن شدہ سفید چینی کا معاملہ ہے۔چنانچہ وہ چینی کم کر کے اس کا متبادل لینے لگتے ہیں جیسا کہ براؤن شوگر اورگڑ وغیرہ، ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ نقصان دہ نہیں ہے۔
کنسلٹنٹ ڈایابیٹالوجسٹ بی ایم راٹھور نے انکشاف کیا کہ ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے، 30 فی صد لوگ اس موذی مرض میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کی فیملی ہسٹری ہے وہ تو ذیابیطس کے شدید خطرے سے دوچار ہیں ہی تاہم شہروں میں ہمارا جو لائف اسٹائل بن گیا ہے۔حتیٰ کہ گاؤں میں رہ کر بھی ہم لوگ اب واک نہیں کرتے، مرغن غذائیں کھاتے ہیں اور کاربوہائیڈریٹس کا استعمال زیادہ ہے، اس کی وجہ سے بھی مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
ماہر امراض نے کہا کہ گڑ میں اگرچہ ریفائن شوگر نہیں ہے تاہم اس سے بھی خون میں گلائسیمک انڈس بڑھتا ہے،اس لیے خوراک کے سلسلے میں بے حد احتیاط لازمی ہے۔
انہوں نے کہاکہ شوگر سے بچاؤ اور کنٹرول کرنے کیلئے سب سے پہلے لائف اسٹائل تبدیل کرنے پر توجہ دینی چاہیے، جیسا کہ ہفتے میں تین سے پانچ دن باقاعدگی سے واک کرنا، اتنی واک کریں کہ اس میں آپ کو پسینہ آ جائے، اس کے بعد کھانے میں کاربوہائیڈریٹ یعنی نشاستے کے استعمال میں کمی لائیں۔