پنجاب حکومت نے بینائی کو متاثر کرنے والے انجیکشن پر پابندی لگا دی

پنجاب حکومت نے صوبے میں متعدد مریضوں کی بینائی کو نقصان پہنچانے کا سبب بننے والے مقامی طور پر تیار کردہ انجیکشن کے معیار کی جانچ تک اس کی فروخت اور استعمال پر دو ہفتوں کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔

ہفتے کے روز، پنجاب حکومت نے صوبے کے مختلف ہسپتالوں میں مبینہ طور پر مقامی طور پر تیار کردہ انجیکشن ’آواسٹن‘ کے لگائے جانے کے بعد مریضوں کی بینائی ضائع ہونے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

کمیٹی کی سربراہی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر اسد اسلم خان بطور کنوینر کریں گے جبکہ اس کے دیگر اراکین میں ڈائریکٹر جنرل ڈرگز کنٹرول محمد سہیل، میو ہسپتال کے ڈاکٹر محمد معین، لاہور جنرل ہسپتال کی ڈاکٹر طیبہ اور سروسز ہسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر محسن شامل ہیں۔

رپورٹس کے مطابق لاہور، قصور اور جھنگ کے اضلاع میں ذیابیطس کے مریضوں کو ریٹینا کو پہنچنے والے نقصان کو دور کرنے کے لیے آواسٹن کے انجیکشن لگائے گئے تاہم یہ انجیکشن الٹا بدترین انفیکشن کا باعث بنا جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظور کے بھائی اور ان کے دوست سمیت تقریباً 12 مریضوں کی بینائی ضائع ہو گئی۔

پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے آج سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں کہا کہ محکمہ صحت اور ڈاکٹروں کے ساتھ ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا تاکہ آواسٹن کے استعمال سے ضائع ہونے والی بینائی کے مسئلے کے حل کے لیے ایک ایکشن پلان بنایا جا سکے۔

منصوبے کے مطابق نان اسٹیرل انجیکشن کی دستیابی کے ذمہ دار ڈرگ انسپکٹرز کے خلاف فوری سخت کارروائی کی جائے گی۔

محسن نقوی نے کہا کہ حکومت پنجاب تمام مریضوں کا مفت علاج کرے گی اور فوری تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیارات کی حامل انکوائری ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ پولیس کو ذمہ داروں کی گرفتاری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔