چارلس ڈی گال فرانس کی جدید تاریخ میں قد آور شخصیت تھے۔ انہوں نے نازی جرمنی کےخلاف مزاحمت کو منظم کیا‘ دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد قائم ہونےوالی عبوری حکومت کی سربراہی کی اور سرمایہ دارانہ معیشت متعارف کروائی جس نے تیس سال کی معاشی ترقی کو یقینی بنایا جب 1958ءمیں الجزائر میں جنگ کے دوران فرانس میں سیاسی نظم و نسق ٹوٹ گیا تو ڈی گال اقتدار میں واپس آئے انہوں نے مضبوط صدارت کےساتھ آئین سازی کی اور دوبارہ صدر منتخب ہوئے الجزائر میں فرانسیسی نوآبادیاتی حکمرانی ختم کرکے جنگ کا خاتمہ کیا اور فرانس کو دنیا کی چوتھی جوہری طاقت بنا دیا لیکن اُن کی کامیابیوں نے اُسے اِس بات کا یقین نہیں دلایا کہ وہ فرانس کےلئے ناگزیر تھا۔ درحقیقت ڈی گال نے اپنے آپ کو اور دوسروں کو یہ بات یاد دلانے کےلئے کہ کسی ایک فرد کو اتنا اہم نہیں سمجھا جانا چاہئے کہ کسی قوم یا ریاست کا کاروبار اُس کے بغیر نہیں چل سکتا ”قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں‘ جو خود کو ناگزیر سمجھتے تھے“ 1969ءمیں جب رائے دہندگان نے ریفرنڈم میں سیاسی اصلاحات کےلئے انکی تجاویز کو مسترد کیا تو ڈی گال نے صدارت سے استعفی دےدیا اور ریٹائر ہوگئے اپنے طویل کیریئر میں ایک فوجی افسر اور سیاستدان کی حیثیت سے‘ ڈی گال کئی بار فرانس کے ہیرو رہے لیکن انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ وہ ایک ناگزیر مسیحا یا نجات دہندہ ہیں اور نہ ہی ایسا فرانسیسی عوام کی سوچ رہی فرانس کئی دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام سے دوچار ملک ہے اور جنرل ڈی گال ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے ملک کو اس عدم استحکام سے باہر نکالا پاکستان کے رہنماو¿ں کےساتھ عوام بھی ملک کے قیام کے وقت سے ہی کسی مسیحا‘ نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں تقریباً ہر بڑی عوامی شخصیت کے حامیوں کا ماننا ہے کہ انکا منتخب کردہ رہنما ملک کو درپیش تمام مشکلات کو حل کرےگا اور فوجی آمروں سے لےکر سیاست دانوں اور کھیلوں کے ہیروز تک خود رہنما بھی اپنی قابلیت پر یقین کرنے لگتے ہیں اگر پاکستانی رہنما جنرل ڈی گال سے کچھ سیکھ لیں کہ کسی بھی قیمت پر عہدے پر رہنے کی ضرورت نہیں ہوتی ایک محب وطن اپنے خیالات کو آگے بڑھاتا ہے اور اگر لوگ انکی حمایت کرتے ہیں تو وہ لوگوں کو ان خیالات پر عملدرآمد کرنے کےلئے بھی رہنمائی کرتا ہے جب لوگ اپنی حمایت واپس لے لیتے ہیں تو یہی نجی زندگی میں لوٹنے کا وقت ہوتا ہے پاکستان کے عوام کو بھی ڈی گال اور اُن کے فرانسیسی حامیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے قائدانہ کردار کےلئے کسی کو صحیح آدمی سمجھنا الگ بات ہے‘اِس بات کا یقین کرنا بالکل مختلف بات ہے کہ آپکے پسندیدہ مسیحا یا نجات دہندہ کے بغیر ملک و قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہے فرانس میں بہت سے لوگ ڈی گال کی تعریف کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں لیکن انہوں نے ’ہمارے رہنما یا کچھ نہیں‘ کا طریقہ اختیار نہیں کیا جو عموماً پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دیکھا جاتا ہے ایک سیاسی تحریک اور ایک شخصیت کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ فرانسیسی اس فرق کو سمجھ گئے پاکستانی نہ سمجھ سکے‘ڈی گال کی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد اور انکی موت کے بعد بھی فرانس میں گالسٹ سیاسی رجحان کا راج ہے کسی کو قوم کا نجات دہندہ اور ناگزیر رہنما کے طور پر دیکھنے کےلئے اسے مافوق الفطرت سمجھنا ضروری ہے مافوق الفطرتیت کی تصویر بنانے کےلئے بہت سارے جھوٹ اور مستقل امیج بلڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے انکی شبیہہ پر توجہ مرکوز کرنے سے ان لوگوں میں خود سے محبت‘ راستبازی اور تسکین پیدا ہوتی ہے جو مسیحا اور نجات دہندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یا ایسا تصور کئے جاتے ہیں ‘ اِس سے عوام میں مصنوعی امید پیدا ہوتی ہے۔ مسیحا‘ نجات دہندہ اور ہیروز جیسی کشش کے نتیجے میں پاکستان میں حکمرانی کی اصلاح نہیں ہو سکی۔ پاکستان کی تاریخ میں ہر حکومت‘ چاہے وہ سول ہو یا فوجی‘ وہ اِسے چلانے والے افراد کے گرد گھومتی رہی ہے۔ طرزحکمرانی کے انتخاب عوامی سطح پر معلومات کا اشتراک کئے بغیر اور بحث کے بغیر کیا جاتا رہا ہے ‘کسی حکومت کی طرف سے کئے گئے وعدے اکثر اُن کے جانشین پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کی فیصلہ سازی عام طور پر بے ترتیب ہوتی ہے ‘اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ کوئی حکومتی پالیسی کتنے عرصے تک چلے گی‘ طویل مدتی اور پائیدار اقتصادی ترقی کےلئے مستحکم سیاسی فریم ورک کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاسی استحکام کا مطلب کسی ایک فرد یا یہاں تک کہ سیاسی جماعت کے اقتدار میں تسلسل نہیں ہوتا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے اٹلی نے ستر برس میں 78 حکومتیں دیکھی ہیں‘ جاپان تقریباً ہر دو سال بعد اپنے وزیر اعظم کو تبدیل کرتا ہے ان قوموں کی سوچ میں استحکام سے سیاسی نظام کا تسلسل حاصل ہوتا ہے۔ وزیر اعظم آفس میں ہر چہرے کی تبدیلی کے ساتھ معاشی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتیں ‘افراد کی من مانیاں ادارہ جاتی جانچ کے تابع رہتی ہیں۔ طرزحکمرانی میں زیادہ تر کامیاب ممالک کے رہنما اتفاق رائے کے معمار اور پالیسی ساز ہوتے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے بعد سے پاکستان کو نجات دہندہ کی تلاش ہے‘ ہر نجات دہندہ نے پہلے سے موجود بنیادوں پر تعمیر کی بجائے طرز حکمرانی کو دوبارہ ایجاد کرنے کی کوشش کی ہے۔( بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسین حقانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام