امریکا اور کینیڈا کے بعد اب یورپ میں بھی تارکینِ وطن کا اِشو سیاست پر شدید اثرات مرتب کر رہا ہے۔ بیشتر یورپی ممالک میں تارکینِ وطن سے بیزاری اور منافرت بڑھتی جارہی ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں یورپ کی سیاست تارکینِ وطن سے بڑھتی ہوئی منافرت کے باعث خطرناک رُخ اختیار کرگئی ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابی نتائج اس بات کے غماز ہیں کہ بائیں بازو کی بیشتر جماعتوں کا صفایا ہوگیا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں چلن میں ہیں۔
یورپی یونین کے 27 ارکان میں ایگزٹ پولز سے اندازہ ہوتا ہے کہ روایتی لبرل اسٹیبلشمنٹ کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا ناممکن سا ہوگیا ہے۔ فرانس اور جرمنی سمیت بیشتر یورپی یونین ارکان کا یہی حال ہے۔
یورپ بھر میں رواداری اور پُرامن بقائے باہمی پر رکھنے والے لبرل عناصر کمزور پڑ رہے ہیں۔ بہت حد تک اُنہوں نے پسپائی ختیار کرلی ہے۔ یورپی معاشروں میں تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث انتہائی دائیں بازو اور قوم پرستانہ سیاست کی نئی لہر آئی ہوئی ہے۔ ایسے میں تارکینِ وطن کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنا بوریا بستر لپیٹ لیں؟
ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ جرمنی میں کرسچین ڈیموکریٹ سی ڈی یو اور سی ایس یو پارٹی کو صرف 30 فیصد تک ووٹ مل سکیں گے۔ انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ دوسرے نمبر پر رہے گی۔ اس نے 16 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق جرمن چانسلر اولاف شولز کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو 14 فیصد اور گرینز کو 12 فیصد ووٹ مل سکیں گے۔
اسپین میں بھی انتہائی دائیں بازو کی لہر جڑ پکڑ رہی ہے۔ یورپی پارلیمنٹ میں انتہائی دائیں بازو کی ہسپانوی جماعت واکس کے ارکان تعداد میں 2 سے 3 کے اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ایک اور پارٹی ’دی پارٹی اِز اوور‘ کو بھی پہلی بار 2 سے 3 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔
اطالوی وزیرِ اعظم جیورجیا میلونی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’برادرز آف اٹلی‘ کو 26 سے 30 فیصد ووٹ ملنے کی توقع ہے۔ آسٹریا میں دائیں بازو کی جماعت ایف پی او کو 27 فیصد تک ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ اس کے نتیجے میں اُس کی نشستوں کی تعداد دُگنی ہوجائے گی۔