ریاض: دو دن میں گرمی کی شدت سے مزید زیر علاج مریضوں اور دیگر حاجیوں کے جاں بحق ہونے سے مجموعی تعداد بڑھ کر ایک ہزار سے تجاوز کرگئی۔
عرب میڈیا کے مطابق ان دو روز میں گرمی سے ہونے والی مزید اموات میں نصف سے زیادہ غیر رجسٹرڈ حاجی تھے اور ان میں بھی سب سے زیادہ تعداد مصری شہریوں کی ہے۔
اس طرح مجموعی طور پر جاں بحق ہونے والے حاجیوں کی تعداد ایک ہزار 81 ہوگئی جن میں سے 658 کا تعلق مصر ہے اور ان میں سے 630 غیر رجسٹرڈ حاجی تھے۔
سعودی عرب کی قومی موسمیاتی مرکز نے بتایا تھا کہ مکہ مکرمہ میں درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا اور 500 سے زائد لاشیں مکہ کے سب سے بڑے مردہ خانہ لائی گئی تھیں۔
آج یہ تعداد بڑھ کر 1 ہزار 81 ہوگئی۔
جاں بحق ہونے والوں میں مسر کے 658، 200 کے قریب انڈونیشیا، 100 سے زائد اردن، ایران 31، پاکستان 35 مقبوضہ کشمیر 5 اور 3 کا تعلق سینیگال سے ہے۔
سعودی سفارت خانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ رواں برس حج کے دوران مکہ مکرمہ میں درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا اور رواں سال مختلف ممالک سے بڑی تعداد میں زائرین سیاحت یا وزٹ ویزوں پر سعودی عرب پہنچے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ کیوں کہ یہ لوگ سیاحتی ویزے پر آئے تھے اور حج کا اجازت نامہ حاصل نہیں کیا تھا اس وجہ سے کسی کمپنی یا ادارے کی فراہم کردہ رہائش، کھانا، نقل و حمل کی سہولیات حاصل نہ کرسکے۔
سعودی سفارت خانے کے مطابق یہ زائرین چلچلاتی دھوپ میں مقدس شہروں میں طویل فاصلہ پیدل طے کرتے رہے۔ جو پیدل چلنے والوں کے لیے مختص نہیں کیے گئے تھے، یہ حالات بہت سے لوگوں کی موت کا باعث بنے۔
سعودی سفارت خانے کے بقول یہ تمام حاجی ضروری سہولیات کے بغیر ہی مناسک حج ادا کر رہے تھے جس کی وجہ سے شدید گرمی کا شکار ہوگئے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس بھی مختلف ممالک نے حج کے دوران 300 سے زائد اموات کی اطلاع دی تھی جن میں زیادہ تر انڈونیشیائی تھے۔
گریگورین کیلنڈر میں ہر سال حج کا وقت تقریباً 11 دن پیچھے چلا جاتا ہے یعنی اگلے سال حج جون کے شروع میں قدرے ٹھنڈے دنوں میں ہوگا۔
جریدے جیو فزیکل ریسرچ لیٹرز کے 2019 کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عازمین حج کے لیے گرمی کا دباؤ سنہ 2047 سے 2052 اور 2079 سے 2086 تک “انتہائی خطرے کی حد” سے تجاوز کر جائے گا۔