1947ء میں بھارت نے جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سمیت جموں و کشمیر کے ایک بڑے حصے پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا جو بظاہر علاقے کے حکمران کی کال پر تھا۔ کشمیر کی ریاست ڈوگرہ وراثت تھی جس نے بھارت کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تھی۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے 1839ء میں زبردستی سکردو پر قبضہ کر لیا اور 1860ء میں گلگت، نگر اور ہنزہ پر بھی قبضہ کیا تھا۔ انگریزوں نے انتظامی نظم و نسق اور سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے ڈوگرہ سرحدوں کو مستقل بنا دیا‘ جس سے ڈوگرہ فتوحات کو قانونی حیثیت حاصل ہوئی۔ سکھ رجمنٹ کے بھارتی فوجیوں نے چھبیس اکتوبر کو سری نگر ائر فیلڈ پر اترنا شروع کیا‘ اس سے پہلے کہ مہاراجہ ہری سنگھ الحاق کے متنازع دستاویز پر دستخط کرتے۔ اَس افسوسناک حقیقت کی تصدیق اسٹینلے وولپرٹ اور اینڈریو رابرٹس جیسے آزاد اسکالرز نے اپنی کتابوں میں ذکر کی ہے۔بھارت ریاست پر اپنے غیر قانونی قبضے کے آغاز سے ہی جانتا ہے کہ اس کے اقدامات بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے جن میں فوجیوں کے انخلأ اور کشمیریوں کی مستقبل کی حیثیت کے بارے میں ان کی خواہشات معلوم کرنے کے لئے استصواب رائے کے انعقاد کا مطالبہ کیا گیا ہے چونکہ یہ قبضہ بین الاقوامی قانون کے مطابق جرم ہے اس لئے جموں و کشمیر میں قابض بھارتی فوج بے بس عوام کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے اور یہ حقیقت بھارتی قابضین پر ختم نہیں ہوئی جو کسی بھی صورت اس قبضے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کے بعد بھارتی رہنماؤں نے شیخ عبداللہ جیسے بھارت نواز کشمیری رہنماؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنے آئین میں آرٹیکل 370 کو ایک ایس او پی کے طور پر تیار کیا۔ مذکورہ آرٹیکل کے تحت خودمختاری کی جھلک بظاہر بھارت نواز رہنماؤں کے لئے بھی کافی نہیں جنہوں نے شروع میں اس رعایت کو ریاست کے لئے زیادہ سے زیادہ خودمختاری کی طرف ایک قدم کے طور پر دیکھا تھا۔ شیخ عبداللہ کو 9 اگست 1953ء کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب انہوں نے احتجاج کیا۔ سب سے زیادہ بات پانچ اگست 2019ء کو اس وقت سامنے آئی جب ہندوتوا پر مبنی بی جے پی حکومت نے صدارتی حکم نامے کے ذریعے ریاست کو ضم کر دیا اور اس سے کشمیری ریاست کی خود مختاری کا دروازہ بند کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا گیا اور جموں و کشمیر اور لداخ کو دو مراکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دے دیا گیا۔ کشمیری اپنے سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے الحاق کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ جیسے بھارت سے ہمدردی رکھنے والے رہنماؤں نے بھی کشمیر کی شناخت کی اس بے حرمتی کی مذمت کی۔اگست 2019ء سے غیر قانونی طور پر مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے دہلی کی طرف سے آبادیاتی حملے اور شناخت کی چوری کا سامنا ہے۔ نوآبادیاتی استعمار کی موجودہ مشہور کتاب سے سبق لیتے ہوئے بھارتی حکومت نے کشمیریوں سے ان کی سیاسی طاقت‘ معاشی حقوق اور ثقافتی شناخت چھیننے کے لئے متعدد منصوبوں کا سہارا لیا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے حیرت انگیز طور پر 2019ء کے صدارتی حکم نامے کی توثیق کی ہے جس کے ذریعے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اور 30 ستمبر 2024ء تک مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا گیا چونکہ مذکورہ آرٹیکل کے تحت صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ بھارتی آئین کے کون سے آرٹیکل کو ریاست تک بڑھایا جاسکتا ہے‘ لہٰذا دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے بعد اس آرٹیکل کی حیثیت کو تبدیل کرنا قانونی طور پر ممکن نہیں تھا۔ بھارتیوں نے اپنے سپریم کورٹ کو غیر قانونی کام کے لئے استعمال کرنے کے علاؤہ آرٹیکل 367 میں ترمیم کرکے صدر مملکت (وزیر اعظم) اور دستور ساز اسمبلی کے ارکان کو گورنر کے عہدے سے تشبیہ دی۔ یہاں تک کہ بھارتی وکیل بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آئین کی مذکورہ شق کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔کشمیر ریڈر کی ایک رپورٹ کے مطابق خطے میں بے روزگاری کی شرح 24.6 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے باسی مایوس اور محروم ہیں یہ آبادی اپنی ثقافت اور شناخت پر بھارتی حملے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور پاکستان ان کی اخلاقی و سفارتی حمایت کر رہا ہے جبکہ اس صورتحال سے ناراض بی جے پی حکومت پاکستان پر مداخلت کا الزام لگانے میں مصروف ہے تاہم اس مرتبہ بھارت کے جھوٹ کو قبول کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔
اشتہار
مقبول خبریں
ہتھیار برائے امن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بٹ کوائن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک بھارت تعلقات: نازک صورتحال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک امریکہ تعلقات: ترقیاتی امکانات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
فضائی آلودگی اور ہمارے شہر
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی سیاست اور دفاعی اخراجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام