یورپی یونین کے موسمیاتی نگران ادارے کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق‘ کرہئ ارض اس رفتار سے انتہائی گرم ہو رہا ہے جو کہ موسمیاتی ماہرین کے تصور کے برعکس ہے۔ سال 2023ء کا درجہ حرارت گزشتہ ایک لاکھ سالوں میں سے تجاوز کر گیا ہے! اس مسلسل اضافے کا سراغ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں یورپ میں شروع ہونے والے صنعتی جوش و خروش سے لگایا جا سکتا ہے۔ فوسل ایندھن سے چلنے والی ترقی کی وراثت دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ہے‘ جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافے کا نیا دور شروع ہوا ہے۔ اس طرح کے خوفناک امکانات کے پیش نظر‘ عالمی رہنماؤں نے سال 2015ء میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں شرکت کی‘ جس نے پیرس معاہدے کو جنم دیا اور جس کا مقصد ”عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافے کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح یعنی 2 سینٹی گریڈ سے نیچے“ رکھنا ہے جبکہ کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مذکورہ معاہدہ گرین ہاؤس گیسوں سے متعلق ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داری کا اظہار اور اِس سے نمٹنے کی ذمہ داری کے احساس کا ثبوت ہے۔ پیرس معاہدہ‘ آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق ایک پابند بین الاقوامی معاہدہ‘ اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ ہر پانچ سال بعد آب و ہوا کے منصوبوں میں اضافہ کیا جائے اور ہر سال اس کام کے لئے مالی امداد میں اضافہ کیا جائے۔ اس عالمی بیانیے میں پاکستان نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے یو این ایف سی کو این ڈی سی کے دو سیٹ پیش کئے ہیں: پہلا 2016ء میں اور دوسرا 2021ء میں پیش کیا گیا۔ مؤخر الذکر نے پاکستان کو 2030ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پچاس فیصد کمی کا وعدہ کیا ہے‘ جس میں پندرہ فیصد مقامی وسائل پر اور پینتیس فیصد بین الاقوامی فنانسنگ پر منحصر ہے۔ یہ وعدے پاکستان پر بھاری مالی بوجھ ڈالتے ہیں‘ توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی طرف منتقلی کے لئے پاکستان کو ایک سو ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اعداد و شمار دوہزاراکیس میں پاکستانی روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی سے پہلے شمار کئے گئے تھے۔پاکستان آب و ہوا میں تبدیلی کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے اِسے شدید گرمی‘ ٹراپیکل طوفان‘ غیر معمولی بارشیں اور گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والے سیلابوں کا خطرہ ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے ضروری تبدیلی کے اقدامات کی مالی اعانت کیسے کر سکتا ہے؟ پیرس معاہدہ تین طریقوں کے ذریعے کاربن مارکیٹوں کی توثیق کرتا ہے: 1: آرٹیکل 6.2 کے تحت این ڈی سیز کے لئے بین الاقوامی طور پر منتقل کردہ تخفیف کے نتائج (آئی ٹی ایم اوز) کا استعمال۔ 2: آرٹیکل 6.4 کے تحت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور پائیدار ترقی کی حمایت کے لئے میکانزم کا قیام اور3: این ڈی سی کے نفاذ میں مدد کے لئے غیر روائتی نقطہ نظر اپنانا۔ پاکستان میں وزارت ِموسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ نے کاربن مارکیٹ پالیسی گائیڈ لائنز کا مسودہ تیار کیا ہے جس کا مقصد کاربن ٹریڈنگ کو آسان بنانا ہے اور جس میں ٹرانسپورٹ‘ توانائی اور جنگلات جیسے شعبوں کے تحفظ کا ہدف کا پچاس فیصد رکھا گیا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے غیر متزلزل اثرات سے نمٹنا اولین ترجیح ہونی چاہئے اور یہاں تک کہ اس حوالے سے اختلافات کو عوامی بھلائی کے لئے پس پشت ڈال دینا چاہئے۔ مزید برآں‘ کاربن کے اخراج میں کمی یا اس کے خاتمے کا آزادانہ طور پر جائزہ لینے اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے مصنوعی ذہانت جیسی ٹیکنالوجیز کو استعمال کرتے ہوئے مانیٹرنگ‘ ریویو اور ویلیو ایشن سسٹم بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔ سادہ لفظوں میں کہا جائے تو اس کا انحصار عالمی موسمیاتی منڈیوں میں شرکت صلاحیت سازی پر منحصر ہے لہٰذا موسمیاتی تبدیلی کی وزارت مختلف اسٹیک ہولڈرز‘ خاص طور پر اضلاع کی سطح پر صلاحیت سازی کی سرگرمیاں شروع کر سکتی ہے۔ صلاحیت سازی کے پروگرام مقامی برادریوں کے تحفظ کے ساتھ کاربن کریڈٹ منصوبوں کا انتظام کرنے کے لئے ضلعی سطح کے عہدیداروں کو بااختیار بنا سکتے ہیں۔ صوبوں کو انتہائی پسماندہ یا کمزور علاقوں میں موسمیاتی تحفظ کے منصوبوں کو ترجیح دینی چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سمیرا شیخ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
چونکہ آرٹیکل چھ کے تحت عالمی مذاکرات ”سی او پی 29“ کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ جن کے حل نہ ہونے والے صوبائی تحفظات پاکستان کی کاربن آفسیٹ منصوبوں سے فائدہ اٹھانے اور اہم ماحولیاتی فنانس حاصل کرنے کی کوششوں اور صلاحیت کو ناکام یا کم کر سکتے ہیں۔ خطرات بہت زیادہ ہیں جن سے بچنے کے لئے ہم آہنگی پیدا کرنے میں ناکامی پاکستان کے لئے زیادہ بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان جو کہ پہلے ہی موسمیاتی بحران میں صف اول کے ممالک میں شامل ہے‘ اگر مقامی طور پر موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام رہا تو اِسے درپیش خطرات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔