برطانیہ‘ فیصلے کی گھڑی

برطانیہ تاریخ کے اُس مقام پر کھڑا ہے جہاں اُسے ایک فیصلہ کن گھڑی کا سامنا ہے اور وقت کے ساتھ جیسے جیسے کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے‘ برطانوی قیادت کو کڑی تنقید اور امتحان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ناقدین اکثر برطانوی وزیراعظم کی قابلیت اور عزم پر سوال اٹھاتے رہے ہیں اور شک کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے کہ ان کی قیادت میں قومی مسائل کے حل کرنے جیسی ضروری خوبیاں موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وہ اس موجودہ چیلنج کا مقابلہ کریں گے اور ہم آہنگی و استحکام کی راہ ہموار کریں گے یا توقعات کے بھاری بوجھ تلے دب جائیں گے؟ صرف وقت ہی اُن کی صلاحیت کو بیان کرے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حقیقی قیادت اکثر بحران کے وقت ابھرتی ہے۔ برطانوی وزیراعظم اسٹارمر کے پاس اب موقع ہے کہ وہ انتہائی دائیں بازو کے تفرقہ انگیز بیانیے کے خلاف فیصلہ کن اور جرأت مندانہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے ملک کو متحد کریں جو آہستہ آہستہ بکھر رہا ہے۔انتہائی دائیں بازو کا گروہ صرف سیاسی دھڑا نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی ذہنیت ہے جو صدیوں سے یورپی معاشرے میں سرایت کر چکی ہے اور جس نے مظلومیت اور غیر ملکیوں سے نفرت کے بیانیے کو برقرار رکھا ہے‘ یہ بیانیہ ثقافتی شناخت کو نفرت کے طور پر پیش کر رہا ہے اور اِس ذہنیت کی ایک طویل اور پریشان کن تاریخ بھی ہے‘ جو ثقافتی بالادستی کو برقرار رکھنے کی خواہش کی وجہ سے ہے اور جس کی قیمت اکثر پسماندہ برادریوں کو چکانا ہوتی ہے۔ برطانیہ میں یہ نظریہ ان لوگوں کو نشانہ بناتا ہے جو معاشی مشکلات اور معاشرتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہیں اور پیچیدہ مسائل کا آسان حل پیش کرتے ہیں‘ انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں کے وعدوں کے لالچ میں آنے والے افراد ایک خطرناک کھیل میں مہرے بن جاتے ہیں جو معاشرے کے تانے بانے کے لئے ایک مرتبہ پھر خطرہ بنا ہوئے ہیں‘ یکسانیت اور استحکام کے افسانوی ماضی کی طرف واپسی کا وعدہ کرکے انتہائی دائیں بازو اپنے آپ کو ”عام لوگوں“ کا ترجمان کہتا ہے اور ایسے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس میں بالآخر ایک چھوٹے طبقے کے مفادات کی تکمیل ہوتی ہے برطانیہ کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے اور جمہوری اقدار کی حمایت کرنے کی بھی ایک الگ تاریخ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ یورپ بھر میں پھیلے فاشزم کی لہر کے خلاف مزاحمت کی کرن تھا۔ برطانوی قوم نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ آزادی اور انصاف پر مبنی مستقبل کے لئے جدوجہد کی۔ جرأت اور یک جہتی کا یہ ورثہ قومی شعور میں گہری سرایت کر چکا ہے۔ آج برطانیہ کی سب سے بڑی طاقت اس کے متحرک ثقافتی تنوع میں ہے۔ جدید برطانیہ کو تشکیل دینے والی زبانوں‘ روایات اور تاریخوں کی بھرپور فہرست اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ تبدیلی کو قبول کرنے اور گلوبلائزڈ دنیا میں پھلنے پھولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ کثیر الثقافتی دولت طاقت اور جدت طرازی کا ذریعہ بھی ہے‘ جو قوم کو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے دور میں آگے بڑھاتی ہے۔ثقافتی خوشحالی کی تعریف ہر شخص کے لئے الگ الگ ہو سکتی ہے۔ جس کی پرورش خاندانی اجتماعات میں بولی جانے والی زبانوں‘ براعظموں میں دوستوں کے ساتھ منائی جانے والی روایات اور مشترکہ کہانیوں سے ہوتی ہے اور یہ کہانیاں ہمیں جوڑتی ہیں۔ گلوبلائزڈ دنیا میں‘ ثقافتی تعامل پہلے سے کہیں زیادہ اہم دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ہمیں چیلنج کر رہا ہے کہ ہم اپنے تجربات سے آگے بڑھ کر سرحدوں کے آر پار ہمدردی‘ تفہیم اور تعاون کو فروغ دیں۔ ہمارے اختلافات رکاوٹیں نہیں  بلکہ ترقی اور تعاون کے مواقع ہیں۔ اس تنوع کو اپناکر، ہم اپنے ورثے کا احترام کرتے ہیں اور ایک زیادہ متحرک‘ جامع اور ہم آہنگ دنیا میں اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے خوف انگیز اور تفرقہ انگیز بیانات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا مطلب اِن اصولوں سے غداری ہوگا جنہوں نے برطانیہ کو عالمی سطح پر ایک اہم طاقت بنایا ہے۔ حالیہ واقعات نے ان اقدار کو برقرار رکھنے کی فوری ضرورت پر زور دیا ہے اور تیزی سے معلومات کے تبادلے کے اس دور میں‘ عوام کی شمولیت، اکثریتی رائے کا احترام اور اتحاد کے لئے قومی عزم اور بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ اِس بڑھتے ہوئے بحران کا مقابلہ کرنے میں‘ سوشل میڈیا زبردست چیلنج اور بے مثال مواقع پیش کرتا ہے۔ اس نے سیاسی بحث کو جمہوری بنایا ہے‘ بے آوازوں کو آواز دی ہے اور متنوع نکتہئ نظر کو پھلنے پھولنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے تاہم اس نے بے چین لوگوں کی آوازوں کو بھی بڑھا دیا ہے‘ جس سے ایکو چیمبرز پیدا ہوئے ہیں جہاں انتہا پسند نظریات بلا روک ٹوک پھیل سکتے ہیں۔ غلط معلومات اور پروپیگنڈے کا پھیلاؤ برطانوی حکومت کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ وہ جدید مواصلات کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے وزیراعظم اسٹارمر اور ان کی حکومت کو درست معلومات کے بلا تعطل پھیلاؤ کو ترجیح دینی چاہئے اور سیاسی و سماجی اختلافات کے درمیان مکالمے کو فروغ دینا چاہئے۔ غلط معلومات کا مقابلہ کرنے اور میڈیا کی خواندگی کو فروغ دینے کیلئے بھی مربوط کوشش کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر شوکت اے۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

‘ شہریوں کو ان معلومات کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے بااختیار بنانا چاہئے جو وہ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ اس کو فروغ دے کر‘ برطانیہ لچکدار جمہوریت تشکیل دے سکتا ہے جو انتہا پسند نظریات کی جوڑ توڑ کے خلاف استقامت کا مظاہرہ کرے۔