دریائے سوات کی حفاظت

وادی سوات کا نام یہاں سے گزرنے والے دریا کے نام پر رکھا گیا ہے جس کا سنسکرت (پراکرت) نام ”سوواستو“ ہے اور اِس نام کا مطلب خالص یا سفید پانی ہے۔ یہ دریا ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں دریائے سندھ کے بعد سب سے اہم دریا سمجھا جاتا ہے۔یہ دریا گبرال‘ مہوڈند‘ مانکیال شریف‘ شیتنگوٹ اور درال کے گلیشئرز سے نکلتا ہے اور 320 کلومیٹرزکا فاصلہ طے کرنے کے بعد دریائے کابل میں گرتا ہے جس سے پوری وادی سوات سیراب ہوتی ہے۔ اس دریا کی معاون ندیوں کو ماضی میں بھی مقدس تصور کیا جاتا تھا۔ تبتی زائرین دریائے سوات کی اژدھے کی کہانی بھی سناتے ہیں جس کے مطابق دریائے سوات کے آخر میں گبرال نامی اژدھا رہتا ہے اور جب وہ وادی میں رہنے والے لوگوں کی بدسلوکی سے مشتعل ہوتا ہے تو قے کرتا ہے جس کی وجہ سے ندی میں سیلاب آ جاتا ہے۔دریائے سوات میں پہلا بڑا سیلاب پہلی صدی عیسوی میں ریکارڈ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے پوری وادی زیر آب آ گئی تھی اور اس سیلاب کے بعد یہاں سوات میں بدھ مت کی تمام آبادی پہاڑوں کی طرف چلی گئی تھی۔ تاریخ دانوں نے اس کے بعد سے کسی بڑے سیلاب کا ذکر نہیں کیا۔ ہمارے بزرگوں کا کہنا ہے کہ 1929ء میں دریائے سوات میں بڑا سیلاب آیا تھا۔ جس کی شدت یہ تھی کہ بحرین کے بازار میں چٹان کے پار دارولائی تک پل کے اوپر سے سیلاب آیا۔ جولائی 2010ء کا سیلاب شاید 1929ء کے سیلاب سے زیادہ تھا جس نے بلند ترین پل کو بھی بہا دیا تھا۔ اس کے بعد اگست 2022ء کا سیلاب بھی شدید تھا جس کا بہاؤ اور حجم 2010ء کے سیلاب سے تقریباً تیس یا چالیس فیصد زیادہ تھا۔ دریائے سوات کا ایک معاون دریا درال جغرافیائی لحاظ سے وادی سوات کے مرکزی شہر بحرین میں واقع ہے۔ اس کے اوپر کی جھیل‘ جسے اب زیادہ تر ڈنڈ گھرا کے نام سے جانا جاتا ہے کو مقدس جھیل کہا جاتا ہے اور مؤرخ ڈاکٹر توچی کا کہنا ہے کہ سوات میں بدھ بھکشو (بدھ مت کے پیروکار) اِس جھیل میں نہایا کرتے تھے۔ توروالی میں ہم دریائے سوات کو صرف ”گھین ناہید“ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے بڑا دریا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سوات کے دیگر دریاؤں میں سب سے بڑا دریا ہے۔وادی سوات کا وجود دریائے سوات ”سوواستو“ سے منسوب ہے۔ اس کے بغیر سوات کی تاریخ ادھوری ہے اور اس دریا کی وجہ سے سوات کاایک باغ تھا۔ سوات میں سیاحت بھی اس دریا کے بغیر ناممکن ہے لیکن اس ندی کو بہت سے خطرات کا سامنا ہے بشمول آلودگی جو بڑھتی ہوئی آبادی اور فلیش فلڈ کی وجہ سے ہے۔ اس ندی کو سب سے زیادہ سنگین خطرہ شہر سے کالام تک بارو توروالی وادی میں ڈیزائن کئے گئے تین بڑے ہائیڈرو پاور پروجیکٹس ہیں۔ ان کا مقصد کالام میں ندی کو سرنگ میں تبدیل کرنا اور اسرت میں پاور ہاؤس تعمیر کرنا ہے۔ اسریت گاؤں سے‘ ندی کا رخ موڑنے اور کیڈم کے قریب پاور ہاؤس کی تعمیر کے لئے ایک اور سرنگ بنائی جانی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دریائے سوات اپنے موجودہ راستے کے بجائے مدین سے کالام تک پہاڑوں کے اندر نظر نہ آنے والی سرنگوں کے ذریعے بہہ جائے گا۔ اگر یہ منصوبے بنائے جاتے ہیں‘ تو ہم ستمبر سے مئی تک ماڈیان سے کالام تک ندی کو نہیں دیکھیں گے۔ مذکورہ منصوبے ماحولیات کے حوالے سے بھی تباہ کن ہیں کیونکہ اِن کے نتیجے میں علاقے میں درجہ حرارت میں اضافہ اور علاقے میں سیاحت کی تباہی ہوسکتی ہے۔ یہ بالآخر اس وادی کی خوبصورتی کو کھا جائے گا‘ یہاں کے چشموں اور کھیتوں کو خشک کر دے گا۔ مدین سے کالام تک کوئی ندی نہیں بلکہ ملبے‘ پتھروں اور ریت کا خشک بہاؤ ہوگا اور بحرین، مانکیال، کیڈم، لائیکوٹ اور پشمل میں سیاحت تباہ ہو جائے گی۔پاکستان عجیب و غریب ملک ہے۔ دنیا بھر کے ممالک دریاؤں پر بڑے منصوبوں کے بجائے چھوٹے منصوبوں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ دریاؤں کا تحفظ آب و ہوا کے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ جنگلات کا لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں ماہرین لمبی سرنگیں بناتے ہیں۔ جب گزشتہ سال مدین ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر عوامی سماعت ہوئی تو لوگوں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا اور وہ اجلاس ناکام ہو گیا تاہم اس صوبے کے لئے ذمہ دار توانائی ایجنسی پیڈو نے اپنی کسی بھی رپورٹ میں اس عوامی ردعمل کا ذکر نہیں کیا۔ مقامی لوگوں کو مذکورہ منصوبوں کے بارے میں سخت تحفظات ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر زبیر توروال۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

عوامی سماعتوں کے بعداب تک تین اجلاس ہو چکے ہیں جن میں لوگوں کی اکثریت نے ان منصوبوں کے خلاف بات کی ہے۔ دریائے سوات پوری وادی سوات کا حصہ (جز) ہے۔ سول سوسائٹی کے ارکان بشمول ماہرین ماحولیات، صحافی، دانشور اور صوبائی سیاسی جماعتوں کو دریائے سوات کو بچانے کے لئے عوام کا ساتھ دینا چاہئے۔