ارشد: سپوت پاکستان

کھیل ایک ایسی چیز ہے جو کسی قوم کو تقویت بخشتی ہے اور اسے جوڑتی بھی ہے۔ کھیل کے شعبے میں پاکستان کے کھلاڑی اِس کا حقیقی سرمایہ ہیں اُور یہی سپوت پاکستان بھی ہیں۔ سکواش کے کھیل کو لیں تو عظیم کھلاڑیوں میں جہانگیر خان کا شمار ہوتا ہے جنہوں نے چھ بار ورلڈ اوپن اور دس بار برٹش اوپن جیتا۔ انہوں نے لگاتار 555 میچ جیتے۔ گنیز ورلڈ ریکارڈ کے مطابق‘ یہ اعلی سطح کے پیشہ ورانہ کھیلوں میں کسی بھی کھلاڑی کی سب سے طویل جیت کا سلسلہ ہے۔ پاکستان ہاکی بین الاقوامی فتح کے پوڈیمز پر مستقل قابض رہی ہے۔ پاکستان نے ہاکی اولمپکس میں آٹھ تمغے جیتے جن میں سے تین طلائی تمغے تھے۔ پاکستان نے آخری بار 1992ء کے بارسلونا اولمپکس میں ہاکی کا تمغہ جیتا تھا اور 1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں سونے کا تمغہ بھی جیتا تھا واضح رہے کہ ہماری ہاکی ٹیم پیرس اولمپکس کے لئے کوالیفائی نہیں کرسکی تھی جہاں چوبیس کروڑ پچاس لاکھ کی آبادی کے ساتھ ہم نے سات ایتھلیٹس کا ’دستہ‘ بھیجا۔ یہ ساڑھے تین کروڑ لوگوں کی جانب سے ایک ایتھلیٹ تھا جبکہ گروپ کے گیارہ عہدیداروں کی تعداد کھلاڑیوں سے زیادہ تھی اُور خاص بات یہ بھی تھی کہ 55 لاکھ آبادی والے فلسطین کی نمائندگی آٹھ ایتھلیٹس کر رہے تھے حالانکہ ان کے خلاف جارحیت اُور نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔نسل پرستی‘ سیاست اور مصائب سے بالاتر ہو کر کھیل کسی ملک کو متحد کرتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ کھیل وہاں امید پیدا کر سکتے ہیں جہاں صرف مایوسی ہو اور اس میں دنیا کو تبدیل کرنے کی طاقت ہو۔ منڈیلا‘ جو ایک ایسے سیاستدان تھے انہوں نے جنوبی افریقہ کی ترقی کا دارومدار ”رینبو نیشن“ کی تشکیل سے کیا۔ انہوں نے ان لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے انہیں چھبیس سال قید رکھا۔ جنوبی افریقہ کی قومی رگبی ٹیم شدید دباؤ کے باوجود کھیلوں میں حصہ لیتی رہی کیونکہ مینڈیلا جانتا تھا کہ اسپرنگ بوکس کو ختم کرنا اس کے قوس قزح قوم کے خواب کے برعکس ہوگا۔ 1995ء میں پہلی بار جب جنوبی افریقہ رگبی ورلڈ کپ کی میزبانی کر رہا تھا تو منڈیلا نے ”ایک ٹیم ایک ملک“ کے نعرے کے ساتھ ایک ٹوٹی پھوٹی قوم کو متحد کرنے کا نعرہ لگایا۔ جنوبی افریقہ فائنل میں پہنچا اور اس کا مقابلہ نیوزی لینڈ سے تھا۔ جب کھلاڑی تیار ہو رہے تھے تو منڈیلا افریقی ٹیم کے کپتان فرانسوا پینار ڈریسنگ روم میں داخل ہوئے۔ وہ تمام کھلاڑیوں سے ملے اور ٹیم کے واحد سیاہ فام کھلاڑی چیسٹر ولیمز کے سامنے رک گئے اُور کہا کہ مجھے تم پر فخر ہے۔ باقی جنوبی افریقہ کو بھی فخر ہونا چاہئے۔ سپرنگ بوکس نے نیوزی لینڈ کو شکست دی۔ ٹیم کے رنگوں میں ملبوس منڈیلا نے ٹرافی تقسیم کی۔ جیسے ہی پینار نے کپ لہرایا اسپرنگ بوکس‘ جو کبھی افریقی علامت ہوا کرتا تھا‘ جنوبی افریقہ کا فخر بن گیا۔ سال دوہزار اُنیس میں جنوبی افریقہ ایک بار پھر رگبی کا عالمی چیمپیئن بنا۔ ٹرافی جنوبی افریقی رگبی ٹیم کی پہلی کپتان سیا کولیسی نے وصول کی۔کھیل خود ساختہ گیندوں اور راگ ٹیگ ٹیموں سے کہیں زیادہ ترقی کر چکے ہیں۔ وہ اب سماجی‘ ثقافتی اور معاشی ترقی کے لئے ضروری آلہ ہیں۔ کھلاڑی کسی بھی ملک کے مضبوط سفیر ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے ممالک کی شناخت ہوتی ہے۔ پیرس اولمپکس میں سلور میڈل جیتنے والے ترک شوٹر یوسف ڈیکیک کو ’کول ڈیڈ‘ اور ’ترک جان وک‘ کا لقب دیا گیا ہے۔ وہ اب ترکی کی علامت بن چکے ہیں۔ کھیلوں نے لیگوں اور کلبوں کے ساتھ ملٹی بلین ڈالر کی کاروباری سلطنتوں میں ترقی دی ہے جو میڈیا‘ کھیلوں کی سیاحت اور کھیلوں کے سازوسامان اور ملبوسات بنانے والے دیگر اداروں کے درمیان اتفاق کا نتیجہ ہیں۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کسی قوم کے لئے کھیلوں سے زیادہ ہم آہنگ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ پاکستان اب بھی 1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت اور 2017ء کی چیمپئنز ٹرافی کی کامیابی کو یاد کرتا ہے۔ آج ہماری خوشی اور فخر ارشد ندیم ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر میر عدنان عزیز۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 پیرس اولمپکس کے کھچا کھچ بھرے اسٹیڈ ڈی فرانس میں قدم رکھنے سے قبل ارشد نے پنجاب یونیورسٹی کے خستہ حال نان ائر کنڈیشنڈ جم میں تربیت حاصل کی۔ اس جابرانہ گرمی کو اس وجہ سے مزید بڑھا دیا گیا تھا کہ اس سہولت میں ان کی ضرورت کی بنیادی ضروری اشیاء بھی نہیں تھیں۔ کیا کسی نے خواب میں بھی تصور کیا ہوگا کہ یہ تنہا شخصیت پاکستان کو اس مقام پر لے جائے گی جس کی کوئی نظیر نہیں تھی؟ ارشد کی ہرکولیس کوشش اسے مزید قابل ستائش بناتی ہے کیونکہ یہ واقعی ایک تنہا اور کٹھن سفر تھا۔ قومی پرچم میں لپٹے ارشد ندیم یوم آزادی سے قبل پاکستان کو دیئے گئے گولڈ میڈل پر خوشی اور فخر سے رو پڑے۔ یہ آنسو پاکستان کے عوام کے لئے بھی ایک ایسے شخص کے دل کی دھڑکن تھے جنہوں نے کسی بھی حد تک اپنے جیولین کو علامہ اقبالؒ کا شاہین بننے سے نہیں روکا کیونکہ ہمارا ہلال اور ستارہ تاریخ کے ورثے میں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ یہ ارشد ندیم جیسے افراد ہیں جو خاطرخواہ ریاستی سرپرستی سے محروم رہتے ہیں‘ پھر بھی ان کے جوش و جذبے اور لچک سے پاکستان کا نام روشن ہوتا ہے۔ پاکستان کی کھیلوں پر طاری ناامیدی کو اُمید میں تبدیل کرنے والے حقیقی ہیرو ہیں اُور یہی حقیقی پاکستان کے ترجمان بھی ہیں۔