بنگلہ دیش میں طلبہ کی زیر قیادت عوامی تحریک نے ہلچل مچا رکھی ہے جس کے نتیجے میں ملک کی مضبوط ترین سمجھی جانے والی خاتون (سابق) وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ طلبہ نے ایک بار پھر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اب ملک کو چلانے کے لئے ایک عبوری حکومت قائم کی گئی ہے جس میں طلبہ رہنماؤں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔بنگلہ دیش میں موجودہ حکومتوں کو چیلنج کرنے والی عوامی تحریکوں کی طویل تاریخ ہے۔ بنگلہ دیش کئی دنوں سے تشدد اور افراتفری کی لپیٹ میں رہا۔ کاروبار اور گارمنٹس فیکٹریاں بند رہیں جس کی وجہ سے بھاری معاشی نقصان ہوا۔ پولیس اور طلبہ مظاہرین کے درمیان جھڑپیں کئی ہفتوں تک جاری رہیں۔ حسینہ واجد نے مظاہرین کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا اور ظالمانہ ریاستی طاقت سے تحریک کو کچلنے کی کوشش کی۔ احتجاج کے دوران تین سو سے زائد مظاہرین ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ پولیس نے دس ہزار سے زائد طلبہ اور سیاسی کارکنوں کو بھی گرفتار کیا۔ حسینہ واجد نے احتجاج کو کچلنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی لیکن ناکام رہیں۔ ریاست کے وحشیانہ جبر اور ہلاکتوں کے باوجود اس تحریک نے زور پکڑا اور حسینہ واجد کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم نے پندرہ سال تک حکومت کی۔ یہاں تک کہ ایک ہفتے تک جاری رہنے والے احتجاج نے انہیں پانچ اگست کو بھارت بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ جہاں وہ اس وقت موجود ہیں اور پناہ حاصل کرنے کے لئے کسی محفوظ ملک کی تلاش میں ہیں۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ایک احتجاجی تحریک نے عوامی لیگ کے رہنما کی پندرہ سالہ حکمرانی کا خاتمہ کیا۔حسینہ اپنے زوال کا ذمہ دار صرف اپنے آپ کو ہی قرار دے سکتی ہیں۔ انہوں نے طلبہ کے احتجاج سے نمٹنے کے دوران کئی دانستہ غلطیاں کیں۔ وہ صورتحال کو پوری طرح سمجھنے میں ناکام رہیں اور ایک کے بعد ایک غلطیاں کرتی چلی گئیں جب انہوں نے طلبہ کے قتل پر معافی مانگنے سے انکار کردیا تو مشتعل مظاہرین کے ساتھ مفاہمت کا موقع بھی گنوا دیا۔ بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کی جانب سے کوٹہ سسٹم پر فیصلہ سنائے جانے کے بعد احتجاج عارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مظاہرین نے حسینہ واجد سے تشدد پر عوامی معافی مانگنے‘ انٹرنیٹ کی بحالی‘ کالج اور یونیورسٹی کیمپس کو دوبارہ کھولنے اور گرفتار افراد کی رہائی جیسے مطالبات پیش کئے۔ اس مرحلے پر ان کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا لیکن جب انہوں نے ان مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا‘ تو مظاہرین سڑکوں پر لوٹ آئے اور اب ان کے استعفے کا مطالبہ کر نے لگے۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کے ساتھ جوش و خروش سے بات چیت کرنے کے بجائے انہوں نے جابرانہ اقدامات کا سہارا لیا۔ وہ طالب علموں سے نمٹنے کے لئے پولیس اور فوج پر انحصار کرتی تھیں۔ انہوں نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ملک بھر میں پائے جانے والے غصے اور عدم اطمینان کو بھی نظر انداز کیا۔ انہیں اس بات کا بھی یقین تھا کہ چونکہ معیشت ترقی کر رہی ہے‘ اس لئے اُنہیں خطرہ نہیں ہے۔ بلاشبہ ان کے دور حکومت میں معیشت تیزی سے ترقی کرتی رہی اگرچہ سرمایہ دار طبقہ خوش تھا کیونکہ اس نے اس اعلیٰ معاشی ترقی سے بہت فائدہ اٹھایا لیکن بنگلہ دیشی معاشرے کے بہت سے طبقات کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ گزشتہ دو برس میں بنگلہ دیش میں افراط زر بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور بہت سے لوگوں کو زندگی گزارنے کے اخراجات کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک میں توانائی کی قیمتوں میں کم از کم تین گنا اضافہ ہوا ہے اور نوجوانوں میں بے روزگاری بھی بہت زیادہ ہے۔سال دوہزارپانچ کے بعد سے تقریباً چھ فیصد کی اعلیٰ شرح نمو کے باوجود‘ نیو لبرل معاشی ماڈل نے ملک میں عدم مساوات میں اضافہ کیا ہے‘ جس کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان شدید تقسیم ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش میں امیر لوگ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی قیمت پر بے پناہ دولت جمع کرتے ہیں۔ ملک میں معاشی ترقی بنیادی طور پر گارمنٹس سیکٹر پر مرکوز ہے اور دیگر شعبے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ ملبوسات کی صنعت کم تنخواہ والی ملازمتیں پیدا کرتی ہے۔ بنگلہ دیش میں تعلیم یافتہ نوجوان کم اجرت اور ملازمتوں کی آرام دہ نوعیت کی وجہ سے نجی شعبے میں شامل ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر خالد بھٹی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے حکومت کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی۔ نوجوان اپنی معاشی صورتحال اور روزگار کے بہتر مواقع کی کمی سے مطمئن نہیں لہٰذا فطری طور پر‘ یونیورسٹی اور کالج کے طالب علموں میں مایوسی پیدا ہوئی جنہوں نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی قیادت نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس کر رہے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ عبوری حکومت کب تک قائم رہے گی۔ بنگلہ دیش کے آئین کے مطابق عبوری حکومت چھ ماہ تک ملک چلا سکتی ہے۔ اس عبوری حکومت میں ماہرین تعلیم‘ سابق فوجی اور سول افسران اور طلبہ تحریک کے رہنما شامل ہیں۔ ڈاکٹر یونس کو حسینہ واجد کی حکومت نے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا تھا اور وہ وطن واپسی سے قبل فرانس میں مقیم تھے۔ طلبہ کی قیادت میں سیاسی انقلاب نے یقینا وزیر اعظم کو باہر کر دیا ہے لیکن معاشی پالیسیوں میں تبدیلی اور عوام دوست انقلابی اصلاحات کے بغیر سماجی اور معاشی صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی۔ طلبہ اور نوجوانوں نے بنگلہ دیش انقلاب میں جانی نقصانات کی صورت بھاری قیمت ادا کی ہے تاہم یہ انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔