ٹیکنوکریٹ جمہوریت 

ہمارے قومی مسائل کا حل موجودہ پالیسیوں میں تبدیلی پر منحصر ہے‘ اس دور میں سماجی و اقتصادی ترقی میں علم کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور معیاری تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کو اپنی حکومتی پالیسیوں کا اہم حصہ بنانا ہوگا۔ یہ ان بدعنوان سیاست دانوں کی اہلیت اور تفہیم سے کہیں زیادہ بڑھ کر کام ہے جنہوں نے ماضی میں پاکستان پر حکومت کی ہے اور اب وقت ہے کہ ایک ایماندار اور دور اندیش ٹیکنوکریٹ حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ٹیکنوکریٹ گورننس کرپشن کو کم کرسکتی ہے کیونکہ ٹیکنوکریٹس کا انتخاب سیاسی وابستگیوں یا اثر و رسوخ کی بجائے مہارت اور میرٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ میرٹ کی بنیاد پر یہ انتخاب زیادہ شفاف اور جوابدہ حکمرانی کا باعث بنتا ہے۔ تکنیکی مہارت پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ‘ ٹیکنوکریٹ حکومت پیچیدہ اور کثیر الجہتی مسائل سے نمٹتی ہے۔ مختلف مسائل کی پیچیدگیوں کو سمجھنے والے ماہرین کی موجودگی مسئلے کو حل کرنے کی زیادہ مو¿ثر حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔ ماہرین کی تیار کردہ پالیسیوں کے قابل عمل اور اچھی طرح سے نافذ ہونے کا امکان بھی اس صورت میں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ٹیکنوکریٹس پالیسی کے نفاذ کے عملی پہلو¶ں کو سمجھتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں سرکاری پروگراموں اور اقدامات پر زیادہ کامیابی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔ ٹیکنوکریٹ حکومت صدارتی نظام جمہوریت یا پارلیمانی نظام جمہوریت کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جمہوریت کے اصولوں کو ٹیکنوکریسی کی مہارت پر مبنی نکتہ¿ نظر کے ساتھ یکجا کیا جائے‘ جس میں فوائد کا انوکھا امتزاج پیش کیا جائے جو حکمرانی اور پالیسی سازی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ یہ ہائبرڈ نظام اپنے فیصلہ سازی کے عمل میں مہارت اور تکنیکی علم کو ترجیح دیتے ہوئے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پالیسیاں متعلقہ شعبوں میں خصوصی علم اور تجربے والے افراد کے ذریعہ تشکیل پاتی ہیں اور عملاً نافذ کی جاتی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی پر مبنی برآمد پر مبنی ہائی ٹیک صنعتوں کی بنیاد رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے ہمارے وفاقی اور صوبائی وزرا¿‘ سیکرٹریز اور دیگر سینئر بیوروکریٹس کو متعلقہ شعبوں کا ماہر ہونا چاہئے جن کی کارکردگی واضح ہو تاکہ پاکستان کو اعلیٰ ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی تیاری اور ان کی برآمدات کے قابل بنایا جا سکے۔ اس کے بعد ہی ہم چھوٹے سے سنگاپور کی راہ پر چل سکتے ہیں جس کی برآمدات آج 390ارب ڈالر ہیں جبکہ پاکستان کی برآمدات 35ارب ڈالر ہیں جبکہ پاکستان سنگاپور سے 50گنا بڑا ملک ہے۔ سنگاپور میں ٹیکنوکریٹ حکومت ہے‘ جہاں زیادہ تر وزرا¿ اور اعلیٰ حکومتی عہدے دار انجینئرنگ‘ معاشیات اور قانون کے شعبوں میں مہارت کا پس منظر رکھتے ہیں۔ چین ایک اور بہترین مثال ہے جس نے صرف تین دہائیوں کے قلیل عرصے میں خود کو غربت سے نکالا ہے۔ چین کی قیادت زیادہ تر انجینئرز اور سائنس دانوں پر مشتمل ہے جو طرزحکمرانی کے حوالے سے ٹیکنوکریٹک نکتہ نظر کو ترجیح دیتے ہیں۔ علم پر مبنی معیشت بننے کی جانب چین کا سفر جدت اور تکنیکی ترقی جیسی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ تبدیلی حکومت کی حمایت‘ تعلیم اور تحقیق میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور کاروباری ماحول کو فروغ دینے سے ممکن ہوئی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے قومی درمیانے اور طویل مدتی پروگرام کے نفاذ نے سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چین کی ترقیاتی حکمت عملی کی بنیاد رکھی۔ اس کے ساتھ چین نے آر اینڈ ڈی میں اپنی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ کیا اور گزشتہ چند دہائیوں میں عالمی سطح پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ممالک میں سے ایک ملک بن گیا۔ بیجنگ میں ژونگ گوانکون سائنس پارک ملک بھر میں ہائی ٹیک صنعتی ترقیاتی زونز کا قیام فقید المثال ہے۔ سائنس پارکس میں مقامی اور بین الاقوامی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کرنے کی طرف راغب کیا جاتا ہے اور نئی ٹیکنالوجیز کی تحقیق اور کمرشلائزیشن کے لئے سازگار ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ اس کے ساتھ چین نے اپنے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ہیں تاکہ ایک انتہائی ہنر مند افرادی قوت تیار کی جا سکے۔ ایس ٹی ای ایم (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی) کی تعلیم پر زور دیتے ہوئے چین نے انجینئروں‘ سائنسدانوں اور ٹیک پیشہ ور افراد کی ایک پوری نسل تیار کی ہے۔ چین کی حکومت نے سٹارٹ اپس اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) کو ”ماس انٹرپرینیورشپ اینڈ انوویشن مہم“ کاروباری ثقافت کو فروغ دینے اور ابھرتے ہوئے کاروباری افراد کو مالی مراعات‘ انکیوبیٹر پروگراموں اور رہنمائی جیسے اقدامات کے ذریعے خاطر خواہ مدد فراہم کی ہے۔ چین نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور بگ ڈیٹا میں بھی پیش رفت کی ہے‘ جس میں 2017ءمیں ’نیو جنریشن آرٹیفیشل انٹیلی جنس ڈیولپمنٹ پلان‘ لانچ کیا گیا جس کا مقصد چین کو 2030ءتک مصنوعی ذہانت میں سرفہرست ملک بنانا ہے۔ ہمیں اپنے طرزحکمرانی اور آئین کو تبدیل کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی نظر مستقبل پر رہے اور تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت قومی ترجیحات میں شامل ہوں تاکہ ہم خود کو موجودہ دلدل سے باہر نکال سکیں اور اپنی معیشت و نظام کو ایک مضبوط و جدید ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کی طرف منتقل کر سکیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمان۔ ترجمہ ابوالحسن امام)