ارشد ندیم کی تاریخی اور ریکارڈ توڑ جیت نے پاکستان بھر کے دل فخر سے بھر دیئے ہیں‘ معاشی بدحالی کے دور میں یہ جیت امید کی کرن ہے کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پاکستانی ایک ناقابل تسخیر قوت ہے۔ امکان ہے کہ اس جیت کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی جائے گی تاہم مجھے امید ہے کہ یہ جیت ہماری حکومت کے لئے غور و فکر کا لمحہ فراہم کرے گی اور پاکستان میں کھیلوں میں سرمایہ کاری کو بڑھائے گی۔ پاکستان کی دو تہائی آبادی کی عمر چوبیس سال یا اس سے کم ہے۔ اگر پاکستان کے نوجوانوں کی تعداد کو صحیح طریقے سے منظم نہ کیا گیا تو یہ نعمت کا اسراف ہوگا۔ ہماری ریاست کو کھیلوں میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ نوجوانوں کے لئے اس کے کثیر جہتی فوائد ہیں‘اقوام متحدہ کی جانب سے سال دوہزارپندرہ میں منظور کئے گئے 2030ء کے ایجنڈے میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ”کھیل پائیدار ترقی کا اہم ذریعہ ہیں۔“ ان کے چند فوائد میں شخصی ترقی‘ اعتماد سازی‘ مثبت ذہنی صحت‘ علمی ترقی‘ استقامت‘ اور یکجہتی کے جذبات کا ابھرنا شامل ہیں۔ کئی ترقیاتی عناصر بھی کھیلوں کو سماجی ہم آہنگی‘ رواداری اور تنازعات کی روک تھام کے لئے اہم سمجھتے ہیں۔ ہمیں کھیلوں کی جامع اور مربوط قومی پالیسی کی ضرورت ہے۔ حفصہ علی اور رچرڈ رائٹ نے حال ہی میں تحقیق کی جس کا بنیادی نکتہ یہ سامنے آیا کہ پاکستان کی کھیلوں کی پالیسی اور بنیادی ڈھانچے جدید بین الاقوامی کھیلوں کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے چاہیئں۔ کھیلوں کی پالیسی کی ترقی اور فراہمی تنظیمی ڈھانچے میں انتظامی نااہلیوں سے متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی مشاہدہ کیا کہ کھیل کے شعبے میں سرکاری اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی کمی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے مختص کردہ فنڈز غیر منصفانہ طور پر تقسیم کئے جاتے ہیں۔حالیہ اولمپکس میں ارشد ندیم کی جیت مکمل طور پر ان کی اپنی محنت کا نتیجہ ہے۔ میاں چنوں کی مقامی برادری نے انہیں اِس مقام تک پہنچانے کے لئے وسائل جمع کئے۔ تصور کریں کہ ہم کھلاڑیوں کو صحیح اور سازگار ماحول اگر فراہم کریں تو اس کے نتیجے میں کون کون سی بلندیاں حاصل کرسکتے ہیں۔ کھیلوں کے لئے سب سے پہلے توجہ کے شعبوں میں سے ایک تعلیم کا ہونا ہے۔ سرکاری سکولوں میں کھیل کی سہولیات نہ ہونے کے برابر فراہم کی جاتی ہیں اگر باصلاحیت بچوں کو تربیت یافتہ کوچز کے حوالے کیا جائے تو ملکی و غیرملکی کھیلوں کے مقابلوں میں پاکستان کا نام مزید روشن ہو سکتا ہے۔ کوچنگ کے حوالے سے پاکستان کو غیرملکی کوچز کی ضرورت ہے جن کی سرپرستی میں تربیت کے پروگرام شروع ہونے چاہئیں جبکہ حکومت غیرملکی کوچوں کے ساتھ ملکی کوچوں کی بھی تربیت کرے اور اگر اِس طرح تربیت میں سرمایہ کاری کی گئی تو پاکستان میں اہلیت کی کمی نہیں۔ قومی سطح پر زیادہ سے زیادہ کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں یا تو براہ راست سرمایہ کاری کر سکتی ہے یا پھر اِس سلسلے میں نجی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے کہ وہ مقامی کھیلوں کے کلبوں‘ تربیتی کیمپوں اور کمیونٹی کھیلوں کے مقابلوں کی مالی مدد کریں۔ ہمیں پسماندہ نوجوانوں کی شرکت کے اخراجات اور سازوسامان کو پورا کرنے کے لئے کھیلوں کی مالی امداد (سرپرستی) یا اسکالرشپ پروگرام کی بھی اشد ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو بامعنی طور پر کھیلوں میں مشغول کرنے اور اُن کے کھیلوں میں حصہ لینے کے لئے مالی رکاوٹوں کو مؤثر طریقے سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ مقامی‘ قومی اور علاقائی کھیلوں کے مقابلوں کے ماحولیاتی نظام کو فروغ دے کر نوجوان رسمی مقابلوں میں حصہ لے سکتے ہیں اور وہ ایسا تجربہ حاصل کر سکتے ہیں جو آئندہ اُن کے کام آئے گا۔انتظامی نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان سپورٹس بورڈ کی تنظیم نو ہونی چاہئے۔ ہمیں کرکٹ جیسے بڑے کھیلوں سے آگے سوچنے اور دیگر کھیلوں میں بھی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین اور معذور افراد کی کرکٹ کے حوالے سے حالیہ پیش رفت کے علاؤہ کھیلوں میں ان کا حصہ بھی کافی حد تک کم ہے۔ ہمیں کھیلوں میں کیریئر بنانے کی خواہش مند خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام کو سماجی اصولوں یا طرز عمل میں تبدیلی کے ساتھ پورا ہونا چاہئے تاکہ اس کیریئر ٹریک میں خواتین کی شمولیت کی قبولیت اور مقبولیت کو بڑھایا جاسکے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مائرہ نارئن بٹ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
کھیلوں میں صحیح سرمایہ کاری‘ کی جائے تو امید ہے کہ ارشد کی جیت مستقبل کے کھلاڑیوں کے لئے امید میں بدل جائے گی جو آگے بڑھ سکتے ہیں اور کامیابی کی نئی بلندیوں کو حاصل کر کے پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مائرہ نارئن بٹ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔