نوجوانوں کی سرگرمیاں ایک طاقت ہیں اور اس کی واضح مثال بنگلہ دیش میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں گزشتہ ماہ ڈرامائی سیاسی ہلچل رہی اور ملک بھر میں طلبہ کی قیادت میں ہوئے مظاہروں کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ مذکورہ انقلاب کے نتیجے میں دوسو سے زائد طالب علم ہلاک اور بچوں سمیت بے شمار افراد زخمی ہوئے۔ یہ ہلچل بدعنوانی اور بدانتظامی سے دوچار معاشرے میں اختلاف رائے کی بھاری قیمت کی واضح یاد دہانی کے طور پر رہی اور یہ تشدد ملک میں ملازمتوں کے کوٹہ کے نظام سے گہری مایوسی کی وجہ سے شروع ہوا جبکہ انقلاب کی جڑیں شیخ حسینہ کی انتظامیہ سے بڑے پیمانے پر مایوسی میں پائی جا سکتی ہیں جس نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک اقتدار سنبھالا۔ کبھی حسینہ واجد کی قیادت اور معاشی اصلاحات کی وجہ سے ان کی تعریف کی جاتی تھی لیکن بعد کے دور اقتدار میں کرپشن اقربا پروری اور مطلق العنانیت کے الزامات لگے۔ انقلاب کو بھڑکانے والی چنگاری طلبہ تنظیم کی طرف سے آئی تھی جو طویل عرصے سے اپنی شکایات کے بارے میں آواز بلند کر رہی تھی۔ ان کے احتجاج کو شروع میں بے حسی اور پھر وحشیانہ جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ جوں جوں مظاہرین کو کچلنے کیلئے حکومت کے ہتھکنڈے بڑھتے گئے مزاحمت میں بھی اضافہ ہوتا گیا‘ملک بھر کے طلبہ تبدیلی کے مطالبے میں متحد ہوئے اور شفافیت احتساب اور ایک ایسی حکومت کا مطالبہ کرنے لگے جس کا مقصد حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت ہو‘مذکورہ مظاہرے اس وقت شدت اختیار کر گئے جب بنگلہ دیش کے بانی اور حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمان کا مجسمہ مظاہرین نے گرا دیا۔ اس اقدام نے علامتی طور پر بنگلہ دیش پر کئی دہائیوں سے حکمرانی کرنے والے سیاسی خاندان سے تعلقات منقطع کر دیئے تھے جس نے پورے ملک میں صدمے کی لہر دوڑا دی تھی۔ مظاہرین کا نعرہ تھا کہ مطلق العنان اقتدار مکمل طور پر بدعنوان ہے۔ آخر کار یہ بغاوت کی طاقت حکومت کیلئے بہت زیادہ ثابت ہوئی اور حسینہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا جس سے بنگلہ دیشی سیاست میں ایک دور کا خاتمہ ہوا۔بنگلہ دیش کے واقعات اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ بے لگام طاقت بدعنوانی اور بدانتظامی کسی قوم کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستان کو بھی کئی اہم چیلنجز کا سامنا ہے جو حسینہ واجد کی حکومت کو درپیش مسائل سے ملتے جلتے ہیں‘ سال دو ہزار چوبیس تک پاکستان کا سرکاری قرضہ جی ڈی پی کا 74.8فیصد تھا جبکہ مالی سال 2023-24 میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 7.33فیصد تک پہنچ چکا ہے‘یہ مالیاتی بحران نیا نہیں۔ 1947ء کے بعد سے پاکستان کو جی ڈی پی کے مقابلے میں قرضوں کا اوسط تناسب 73فیصد اور اوسط مالی خسارہ 5فیصد رہا ہے‘ مالی خسارے کو ختم کرنے کیلئے قرضوں پر انحصار کیا جاتا ہے اور یوں قرضوں کا چکر پیدا ہوتا جو معاشی لچک کو محدود کئے ہوئے ہے‘ اس وقت پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف 3.7 فیصد تعلیم اور9.7 فیصد صحت کے اخراجات کیلئے مختص کرتا ہے جو اس کی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہیں‘پاکستان کی معاشی بحالی کیلئے صحت اور تعلیم میں سرمایہ کاری بہت ضروری ہے۔ پاکستان کو پہلے سے کہیں زیادہ سیاسی اتحاد و استحکام کی ضرورت ہے مضمون نگار پیپلزپارٹی کی رہنما اور قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر شرمیلا فاروقی۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)