سرحدوں کے محافظ

پانچ ستمبر 1965 ء کی اندھیری رات توپوں، گولیوں اور لڑاکا طیاروں کی گونج کے درمیان ہمارے پیارے مادر وطن پر حملہ کیا تاہم حملہ آوروں نے پاک فوج کے بہادر جوانوں کی نگرانی کو نظر انداز کیا جو سرحدوں کے دفاع کے لئے ہمہ وقت تیار تھے۔ اگلے ہی دن ہمارے فوجیوں نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے قربانی اور بہادری کی لازوال اور روشن مثالیں قائم کیں۔ ان تکلیف دہ محاذ آرائیوں کے دوران کوئی بھی دشمن کی عددی برتری یا فوجی طاقت کے سامنے متزلزل نہیں ہوا۔ آج 1965 ء کی جنگ کو تقریبا ًچھ دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اس کے باوجود پوری دنیا پاکستانی افواج کی بہادری‘ جرات اور جذبہ شہادت کا اعتراف کر رہی ہے۔ جنگ کے دوران پاکستانی افواج نے جو دفاعی حکمت عملی اپنائی تھی اس کا حوالہ آج بھی دنیا بھر کے فوجی نصاب میں ملتا ہے۔ چونڈہ کی لڑائی کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جس میں پاکستانی فوجیوں نے کامیابی کے ساتھ دشمن کے بڑے حملے کو پسپا کیا۔ فوجیوں کی سینے پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کو تباہ کرنے کی کہانی اس بہادری کی عکاسی کرتی ہے۔ جب دشمن (بھارت)نے لاہور پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو ان کا سامنا میجر عزیز بھٹی سے ہوا‘ جن کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ پاکستانی فوجی اپنے ملک کے دفاع کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں جبکہ دشمن بڑے پیمانے پر پروپیگنڈے میں مصروف تھا، آزاد غیر ملکی میڈیا نے جنگ کے دوران پاکستان کی فوجی کامیابیوں کا اعتراف کیا۔ پاک بحریہ نے بھی اس جنگ میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے بحری راستوں کا کامیابی سے کنٹرول حاصل کیا۔ ایک طرف دشمن کے جہازوں کی نقل و حرکت کو محدود کیا گیا تو دوسری طرف پاکستانی بندرگاہوں تک محفوظ تجارتی راستوں کو یقینی بنایا گیا۔ پاکستانی فضائی حدود کو محفوظ بنانے کے لئے ائر مارشل اصغر خان، ائر مارشل نور خان اور ایم ایم عالم جیسی کئی عظیم شخصیات نے اہم کردار ادا کیا۔ سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی، منیر الدین، علاؤالدین اور بہت سے دیگر شہدا نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن دشمن کو ہمارے قومی آسمان کی خلاف ورزی نہیں کرنے دی۔1965 ء کی جنگ کا ایک اور قابل ذکر پہلو محب وطن غیر مسلم پاکستانی جنگی ہیروز کا کردار تھا۔ بہت سے عیسائی اور ہندو پاکستانی فوجی مادر وطن کے دفاع کے لئے شانہ بشانہ لڑے، کچھ نے یہ ثابت کرنے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا کہ پاکستان کی حفاظت ایک فرض ہے جو مذہب سے بالاتر ہے۔ ائر کموڈور بلونت کمار ان سینئر پاکستانی ہندو افسران میں سے ایک تھے جنہوں نے پاکستان کے دفاع کے لئے جنگ لڑی۔ دیگر بہادر ہیروز میں گروپ کیپٹن سیسل چودھری، ونگ کمانڈر مروین لیسلی مڈل کوٹ، اسکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی، ایئر وائس مارشل ایرک گورڈن ہال اور میجر جنرل جولین پیٹر شامل تھے۔ جیسے ہی امریکہ اور سوویت یونین جو اس دور کی دونوں سپر پاورز جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ میں سرگرم ہو گئے۔ پاکستان کے متحرک وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے عالمی برادری کے سامنے پاکستان کا موقف مضبوطی سے پیش کیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر کا مستقل حل نکالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ بصورت دیگر پاکستان ایک ہزار سال تک لڑنے کو تیار ہے۔ عالمی طاقتوں کی کوششوں کی بدولت بالآخر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 211 کے ذریعے جنگ بندی کا نفاذ کیا گیا۔ قومی سطح پر بھٹو سفارتی محاذ پر اپنے جرات مندانہ اور جرات مندانہ موقف کے ساتھ پاکستان کے مقبول ترین رہنما کے طور پر ابھرے۔ اس کے فوراً بعد سوویت یونین نے پاکستان اور بھارت کو امن مذاکرات کے لئے تاشقند مدعو کیا اور بھٹو نے پاکستانی عوام کی امنگوں کی نمائندگی کی، جس کے نتیجے میں بالآخر پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ چھ ستمبر کو مناتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمیں جو آزادی حاصل ہے وہ ہماری مسلح افواج کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے ہماری جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی۔ آج ہمارے دشمن غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا کر ہمیں اندرونی طور پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تاریخی دن پوری پاکستانی قوم کو عظیم قومی جوش و جذبے، غیر متزلزل اتحاد اور سماجی ہم آہنگی کے ساتھ متحد ہونے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)