تارکین وطن: حالیہ عروج

ذرا تصور کریں کہ آج سے چند دہائیوں بعد پہلی دنیا کے زیادہ تر ممالک کے لوگ کس قدر تارک وطن ہونے کو ترجیح دیں گے۔ یہ منظر نامہ، جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، تیزی سے قابل قبول ہوتا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم رشی سنک اور اسکاٹ لینڈ کے پاکستانی نژاد سابق وزیر اعظم حمزہ یوسف جیسے رہنما گہری آبادیاتی اور سیاسی تبدیلی کی علامت سمجھے جا رہے ہیں۔ یہ پیش رفت نوآبادیات اور ان کی سابقہ کالونیوں کے درمیان تاریخی حرکیات کی اہم تبدیلی کی نشاندہی کر رہی ہے، ایک ایسی تبدیلی جو عالمی منظر نامے کو نئی شکل دینے کے لئے تیار ہے۔یورپ‘ شمالی امریکہ اور مشرقی ایشیا کے ممالک عمر رسیدہ آبادی سے نبرد آزما ء ہیں۔ جاپان‘ جرمنی اور اٹلی جیسے ممالک میں اوسط عمر دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی اوسط عمر اگرچہ کم ہے تاہم اس میں بہتری آ رہی ہے۔ یہ رجحان کم شرح پیدائش‘ متوقع عمر کی حد میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ نتیجتاً ان ممالک میں مزدوروں کی کمی ہے تاہم اس کے مضمرات بہت گہرے ہیں۔ وہ معیشتیں جو کبھی بڑے اور پیداواری افرادی قوت کی وجہ سے چلتی تھیں‘ اب بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی کے دباؤ سے نکلنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔ حکومتوں کو اپنے عمر رسیدہ شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ریٹائرمنٹ کی عمر، پنشن کے نظام اور صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے تاہم‘ اس آبادیاتی تبدیلی کا سب سے نمایاں نتیجہ ابھرتی ہوئی قیادت کا خلا ہوسکتا ہے کیونکہ عمر رسیدہ رہنما ریٹائر ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ لینے کے لئے خاطرخواہ تعداد میں نوجوان دستیاب نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس بہت سے افریقی اور جنوبی ایشیائی ممالک‘ جو کبھی عمر رسیدہ افراد کا مسکن ہوا کرتے تھے اب آبادی میں اضافے کا سامنا کر رہے ہیں۔ نائجر‘ یوگنڈا اور انگولا جیسے ممالک کی آبادی کم عمری کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ تقریباً بائیس سال کی اوسط عمر کے ساتھ پاکستان بھی ایک اہم دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اس کی نوجوان آبادی انسانی سرمائے اور معاشی ترقی کے لئے زبردست اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ ڈیموگرافک فائدہ نوجوان افرادی قوت کی توانائی‘ تخلیقی صلاحیتوں اور جدت کو بروئے کار لانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اگر نوجوانوں کو مؤثر طریقے سے تعلیم دی جائے اُنہیں ہنر مند اور روزگار کے قابل بنایا جائے تو اس سے معاشی توسیع اور پیداواری صلاحیت میں اضافے جیسے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں تاہم اس کے لئے تعلیم و صحت کی دیکھ بھال اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔عالمی سطح پر اگر نقل مکانی کے رجحانات کو دیکھا جائے تو یہ انتہائی اہم تبدیلی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ افریقہ‘ ایشیا اور لاطینی امریکہ سے آنے والے تارکین وطن ترقی یافتہ ممالک سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں زیادہ نمایاں دکھائی دے رہے ہیں۔ جیسے جیسے نوجوان آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ قائدانہ کردار ادا کرتے ہیں تو یہ اپنے ساتھ گلوبل ساؤتھ میں کی نئی تشکیل کے متنوع نقطہئ نظر کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ لندن کے میئر بننے والے پاکستانی تارکین وطن کے بیٹے صادق خان اور روٹرڈیم کے مراکشی نژاد میئر اباؤتالیب جیسے رہنما اس رجحان کی عکاسی کرتے ہوئے عمدہ مثال ہیں۔ تارکین وطن کا اُبھرتا ہوا رجحان صرف آبادیاتی ناگزیریت کا معاملہ نہیں بلکہ یہ بھی ایک موقع ہے۔ تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے نوجوان جب عالمی سطح پر تارکین وطن کو اہم عہدوں پر فائز اور کامیاب انسان کے طور پر دیکھتے ہیں تو اس سے اُن میں تارک وطن ہونے کے لئے نئی توانائی پیدا ہوتی ہے۔ امکان ہے کہ یہ نوجوان موسمیاتی تبدیلی، نقل مکانی اور معاشی عدم مساوات جیسے مسائل کو ترجیح دیں گے۔ اس آبادیاتی تبدیلی کے مضمرات بھی بہت گہرے ہیں۔ مستقبل کے عالمی نظام میں طاقت کے روایتی مراکز میں تبدیلی دیکھنے کو مل سکتی ہے‘ جس میں گلوبل ساؤتھ‘ خاص طور پر افریقہ اور جنوبی ایشیا تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کی قیادت کریں گے جیسے جیسے ترقی یافتہ ممالک اپنی معیشتوں اور سیاسی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے تارکین وطن کی آبادی پر زیادہ انحصار کرتے جائیں گے‘ گلوبل ساؤتھ کا اثر و رسوخ بھی بڑھتا چلا جائے گا۔ عالمی سطح پر نئی نسل کو ایک ایسی دنیا کی ضرورت ہوگی جہاں پرانی یقین دہانیاں نہ ہوں۔ عمر رسیدہ آبادیوں‘ نوجوانوں کی بے روزگاری‘ نقل مکانی اور عالمی عدم مساوات جیسے چیلنجوں کی موجودگی میں مسائل کے جدید حل اور فرسودہ تصورات پر نظر ثانی کی ضرورت الگ سے محسوس ہوگی چونکہ پہلی دنیا کے نوجوان کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں اِس لئے یہ زیادہ محنت کریں گے جس سے ڈرامائی تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مسعود لوہار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام) 


یہ بات باعث حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ مستقبل کے رہنماؤں کا تعلق ایسے ممالک سے ہو سکتا ہے جنہیں آج نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ تارک وطن ہونے کی سوچ اور اِس سے پیدا ہونے والی تبدیلی کی گونج پہلے ہی محسوس کی جا رہی ہے اور اس سے ممکنہ طور پر زیادہ جامع اور منصفانہ عالمی نظام کا آغاز ہو گا‘ ایک ایسا نظام جہاں نوآبادیات کی وراثت تبدیل ہوگی اور یہی (آنے والے برس کے دوران) دنیا میں تبدیلی کا رہنما اصول ثابت ہوگا۔