مصنوعی ذہانت (اے آئی) اب سائنس فکشن تک محدود تصور نہیں رہی بلکہ یہ ایک طاقتور قوت ہے جو دنیا کو نئی شکل دے رہی ہے۔ سائنسی دریافتوں کو تیز کرنے سے لے کر ہماری معیشتوں کے تانے بانے کو تبدیل کرنے تک‘ مصنوعی ذہانت زندگی کے ہر پہلو پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔ سائنسی تحقیق پر مصنوعی ذہانت کے اثرات انقلابی سے کم نہیں ہیں۔ سال 2020ء میں‘ ڈیپ مائنڈ کے الفا فولڈ نے پروٹین کے تھری ڈی ڈھانچے کی درست پیش گوئی کرکے حیاتیات کے بڑے چیلنجوں میں سے ایک کو توڑ دیا۔ اس پیشرفت سے ادویات کی دریافت میں تیزی لانے کی صلاحیت موجود ہے‘ جس سے ان بیماریوں کے علاج کی نئی امید پیدا ہوئی جو طویل عرصے سے سائنسدانوں کی کوششوں سے حاصل نہیں ہو رہی تھی۔اسی طرح لیب جینیئس جیسے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے روبوٹ لیبارٹریوں میں معمول کے کاموں کو خودکار بنا رہے ہیں جیسے پائپٹنگ اور مکسنگ سلوشنز کی تیاری جس سے سائنس دانوں کو زیادہ پیچیدہ مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ آٹومیشن نہ صرف تحقیق کو تیز کئے ہوئے ہے بلکہ ان کے استعمال سے انسانی غلطی کا احتمال بھی کم رہتا ہے‘ جس سے سائنسی تجربات زیادہ قابل اعتماد ہوجاتے ہیں۔ شعبہ فلکیات میں‘ مصنوعی ذہانت نے کائنات کو دریافت کرنے کے طریقے کو تبدیل کردیا ہے۔ مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت نے کیپلر خلائی دوربین کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جس کے نتیجے میں ”کیپلر 90 آئی“ جیسے سیاروں کی دریافت ہوئی۔ یہ صلاحیت دیگر شعبوں میں بھی پھیلی ہوئی ہے‘ جیسے آب و ہوا
سے متعلق سائنسی علوم‘ جہاں مصنوعی ذہانت سے چلنے والی سیمولیشنز موسم کی زیادہ درست پیش گوئی کر رہے ہیں۔ برطانیہ کے محکمہ موسمیات کے ساتھ گوگل کے تعاون سے مصنوعی ذہانت کے ماڈل تیار کئے گئے ہیں جو غیر معمولی درستگی کے ساتھ بارش کی پیش گوئی کرتے ہیں اور ان کی مدد سے سیلاب کی روک تھام اور زرعی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں بھی مصنوعی ذہانت کے ذریعے انقلاب برپا کیا جا رہا ہے۔ آئی بی ایم کے واٹسن فار اونکولوجی مریضوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے اور وسیع طبی لٹریچر کے ساتھ انفرادی معاملات کا موازنہ کرکے ذاتی کینسر کے علاج کے منصوبوں کی سفارش کرنے کیلئے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ مؤثر علاج ہوا ہے‘ بے شمار مریضوں کیلئے معیار زندگی کو بہتر بنایا گیا ہے۔ مزید برآں‘ گوگل کے ڈیپ مائنڈ کی جانب سے تیار کردہ مصنوعی ذہانت پر مبنی تشخیصی ٹولز آنکھوں کے حالات جیسی بیماریوں کا درستگی کے ساتھ پتہ لگا سکتے ہیں جو بہترین انسانی ماہرین کا مقابلہ کرتے ہیں‘ جس سے پہلے اور زیادہ درست مداخلت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کا اثر روبوٹکس اور آٹومیشن تک بھی پھیلا ہوا ہے۔ زراعت میں‘ جان ڈیئر جیسے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے روبوٹ جڑی بوٹیوں کے ساتھ جڑی بوٹیوں کی نشاندہی کرکے اور ان کو درست طور پر نشانہ بنا کر کاشتکاری کو تبدیل کر رہے ہیں‘ جس سے فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کرتے ہوئے کیمیائی استعمال میں نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے۔ آب و ہوا کی سائنس میں‘ مصنوعی ذہانت زیادہ مؤثر قابل تجدید توانائی کے ذرائع تیار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر‘ سٹارٹ اپ ہیلیوجن انتہائی درستگی کے ساتھ سورج کی روشنی کو مرکوز کرنے کیلئے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتا ہے‘ جس سے گرمی پیدا ہوتی ہے جو صنعتی عمل میں فوسل ایندھن کی جگہ لے سکتی ہے۔ کوانٹم کمپیوٹنگ کے دائرے میں مصنوعی ذہانت نئی بنیادیں توڑ رہی ہے۔ گوگل کے سائکامور کوانٹم پروسیسر نے مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کے ساتھ مل کر ’کوانٹم بالادستی‘ حاصل کر لی ہے‘ جس سے ایسے مسائل حل ہو گئے ہیں جو کلاسیکی کمپیوٹرز کو مکمل ہونے میں ہزاروں سال لگیں گے۔ یہ کرپٹوگرافی اور مواد کی سائنس جیسے شعبوں میں نئی سرحدوں کی دریافت ہے‘ جہاں پیچیدہ مسائل کو اب زیادہ مؤثر طریقے سے نمٹایا جا رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کا اثر سائنس اور ٹیکنالوجی سے کہیں آگے تک پھیلا دکھائی دے رہا ہے‘ یہ معیشتوں اور معاشروں کو بھی نئی شکل دے رہا ہے۔ مینوفیکچرنگ جیسی صنعتوں میں مصنوعی ذہانت سے چلنے والی آٹومیشن نے نمایاں پیداواری فوائد حاصل کئے ہیں۔ مثال کے طور پر‘ ٹیسلا گیگا فیکٹریاں بیٹری کی پیداوار کو بہتر بنانے کیلئے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہی ہے۔ جس
سے ڈرامائی طور پر لاگت کم ہوئی ہے اور برقی گاڑیوں کو بنانے کے کام میں تیزی آئی ہے تاہم‘ یہ آٹومیشن ملازمتوں میں کمی کا باعث بنی ہے اور اگرچہ فی الوقت مصنوعی ذہانت کچھ ملازمتوں کی جگہ لے رہی ہے‘ خاص طور پر مینوفیکچرنگ اور کسٹمر سروسز کے شعبوں میں لیکن مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات جیسا نیا شعبہ قائم ہوا ہے جس سے ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ تعلیم ایک اور شعبہ ہے جہاں مصنوعی ذہانت گہرا فرق پیدا کر رہی ہے۔ کورسرا اور ڈولنگو جیسے آن لائن پلیٹ فارم سیکھنے کے عمل و تجربات میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی بدولت سمارٹ شہروں کا تصور حقیقت بن رہا ہے۔ سنگاپور میں‘ مصنوعی ذہانت کا استعمال ٹریفک کو بہتر بنایا گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے نظام ٹریفک لائٹس اور عوامی نقل و حرکت کو منظم کیا جا رہا ہے۔ سیکورٹی ایک اور اہم شعبہ ہے جہاں مصنوعی ذہانت نمایاں کردار ادا رہی ہے۔ ڈارک ٹریس جیسے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے سائبر سکیورٹی ٹولز ریئل ٹائم میں سائبر خطرات کا پتہ لگانے اور ان کا جواب دینے کیلئے مشین لرننگ کا استعمال کرتے ہیں اگرچہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) بے پناہ صلاحیت کے ساتھ امیدوں کا مرکز ہے لیکن اس سے جڑے چند اہم خطرات بھی ہیں جن سے حفاظت یقینی بنانے کے ساتھ نمٹنا بھی ضروری ہے۔ ان خطرات کو کم کرنے کیلئے‘ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کیلئے فعال اقدامات کرنے ہونگے کہ مصنوعی ذہانت کو تیار اور ذمہ دارانہ طور پر استعمال کیا جائے۔ (مضمون نگار یونیسکو کے سابق وفاقی وزیر ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمان۔ ترجمہ ابوالحسن امام)