دنیا کے بہت سے دیگر خطوں کی طرح‘ چین نے براعظم افریقہ میں اپنے معاشی اہداف کو نمایاں طور پر وسعت دی ہے اور انہیں حاصل کرنے کے لئے مستقل مزاجی سے کام کر رہا ہے جس کی وجہ سے چین کے تعلقات اور روابط ہر گزرتے دن کے ساتھ مستحکم اور مضبوط ہو رہے ہیں۔ افریقہ میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے کردار کا ٹھوس ثبوت حالیہ چین افریقہ سربراہ اجلاس ہے جو چار سے چھ ستمبر بیجنگ میں منعقد ہوا اور جسے سرکاری طور پر فورم آن چائنا افریقی کوآپریشن (ایف او سی اے سی) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سال دوہزار میں اپنے قیام کے بعد سے، یہ فورم ہر تین سال بعد منعقد کیا جاتا ہے اور تازہ ترین اجلاس چین اور افریقی قیادت کے مابین اس طرح کا نواں اجلاس تھا۔ ایف او سی اے سی فریم ورک کے تحت حالیہ اجلاس اور اس کے بعد کے معاہدوں نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے حوالے سے صنعت کاری، زرعی ترقی، سلامتی اور تعاون پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔ چین کی وزارت خارجہ کے مطابق اجلاس کا موضوع جدیدکاری کو آگے بڑھانے اور مشترکہ مستقبل کے ساتھ اعلیٰ سطحی چین افریقہ کمیونٹی کی کوششوں میں تعاون کو بڑھانا تھا۔ کانفرنس میں افریقی ممالک کے کم از کم 53 سربراہان مملکت یا ان کے نمائندوں اور وزارتی مندوبین نے شرکت کی۔ ایسواتینی واحد افریقی ملک ہے جس کے چین کے ساتھ کوئی رسمی تعلقات نہیں جو فورم سے غیرحاضر رہا کیونکہ یہ واحد افریقی ملک ہے جس کے تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔چین گزشتہ پندرہ برس سے افریقہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے کیونکہ دوطرفہ تجارت سال دوہزارتیئس میں 282 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ سال دوہزار میں ایف او سی اے سی کے قیام کے بعد سے چین نے افریقی ممالک کو رعایتی قرضوں اور ترقیاتی تعاون میں تقریباً 134 ارب ڈالر فراہم کئے ہیں۔ چینی ذرائع کے مطابق، چینی کمپنیوں نے براعظم میں تقریباً دس لاکھ ملازمتیں پیدا کی ہیں اگرچہ چین طویل عرصے سے براعظم افریقہ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن بی آر آئی کے باضابطہ آغاز کے بعد، بیجنگ نے نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے اور بجلی کی پیداوار میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ مجموعی طور پر، چین نے افریقی ممالک کو تقریباً دس ہزار کلومیٹر ریلوے اور ایک لاکھ کلومیٹر سے زیادہ سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور اپ گریڈ کرنے میں مدد کی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، بیجنگ نے چھ ہزار کلومیٹر سے زیادہ ریلوے اور سڑکیں تعمیر کی ہیں اور افریقہ میں تقریبا بیس بندرگاہوں اور 80 سے زیادہ بڑے پاور پلانٹس تعمیر کیے ہیں۔ قابل ذکر منصوبوں میں کینیا، تنزانیہ، یوگنڈا، جبوتی اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں ممباسا نیروبی اسٹینڈرڈ گیج ریلوے ادیس ابابا جبوتی ریلوے، انٹیبے بین الاقوامی ہوائی اڈا اور ڈورالہ کثیر المقاصد بندرگاہ شامل ہیں۔ جیسا کہ افریقہ میں بی آر آئی کے زیادہ سے زیادہ منصوبوں پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے، چین افریقہ تجارتی اور کاروباری تعلقات کے ساتھ عوام سے عوام کے درمیان رابطوں میں مزید اضافے کی کوششیں کر رہا ہے۔ڈیجیٹل کنیکٹیوٹی کے شعبے میں چین نے بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا ہے اور آج افریقہ کے 80فیصد تھری جی نیٹ ورک کو چینی کمپنیاں چلا رہی ہیں۔ اسی طرح، جب فور جی نیٹ ورک کی بات آتی ہے تو، چینی کمپنیوں نے افریقہ کے فور جی انفراسٹرکچر کا تقریباً 70 فیصد تعمیر کیا ہے۔ مجموعی طور پر، چین نے ڈیجیٹل رابطے کے دائرے میں ڈیڑھ لاکھ کلومیٹر سے زیادہ نیٹ ورک قائم کیا ہے، جس سے تقریباً ستر کروڑ افریقی صارفین مستفید ہو رہے ہیں۔ چین کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہواوے افریقہ کے فور جی ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک کا بڑا حصہ فراہم کر رہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی اور فائیو جی پانچویں نسل کی سیلولر نیٹ ورک ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے اور ہواوے چین کے عظیم قومی چیمپیئنز میں سے ایک بن گیا ہے‘ جو اس کی تکنیکی اور تجارتی طاقت کی علامت ہے۔توانائی کے شعبے میں بھی چین پیش پیش ہے اور اس نے براعظم افریقہ میں مجموعی طور پر ایک ہزار سے زیادہ بڑے اور چھوٹے پن بجلی گھر تعمیر کئے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر مراد علی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
صاف توانائی کے شعبے کے لئے بھی پچاس فیصد سے زیادہ عوامی فنڈنگ چین کی طرف سے فراہم کی گئی ہے۔ صرف ایف او سی اے سی کے دور میں بیجنگ نے ہوا‘ شمسی اور ہائیڈرو بجلی پر مشتمل ایک سو سے زائد صاف توانائی کے منصوبوں کی تعمیر میں مدد کی ہے۔ افریقہ کو بجلی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور اس کی چالیس فیصد سے زائد آبادی بجلی تک رسائی سے محروم ہے۔ خاص طور پر‘ افریقہ کی بجلی سے محروم آبادی کا ایک اہم حصہ سب صحارا افریقہ ہے۔ چینی کمپنیوں نے اس خلا کو پر کرنے میں مدد کی ہے اور سب صحارا افریقہ میں بجلی کی پیداوار کے شعبے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ افریقہ کی ایک اعشاریہ چار ارب آبادی میں سے، براعظم میں چونسٹھ کروڑ سے زیادہ افراد یا تقریباً چالیس فیصد افریقیوں کو توانائی تک رسائی حاصل نہیں جو دنیا میں سب سے کم ہے۔ سب صحارا افریقہ (جنوبی افریقہ کو چھوڑ کر) میں، توانائی کی فی کس کھپت 180کلو واٹ ہے جبکہ یورپ میں فی کس ساڑھے چھ ہزارکلو واٹ اور امریکہ میں تیرہ ہزار کلو واٹ فی کس ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ زیادہ تر افریقی ممالک شوق سے بی آر آئی میں شامل ہوئے لہٰذا، بہت سے دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح، بی آر آئی افریقی حکومتوں کے لئے توانائی اور نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنے کا نادر موقع ہے تاکہ وہ اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی بنیادی ضروریات پورا کرسکیں۔ چینی تعمیراتی کمپنیوں نے افریقہ میں پچیس گیگاواٹ سے زیادہ پیداواری صلاحیت نصب کی ہے، جو سب صحارا افریقہ کی نصب کردہ پیداواری صلاحیت کا پندرہ فیصد سے زیادہ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی دوسرے خطے اور شعبے کی طرح چین نے افریقہ میں اپنے مغربی حریفوں کو سرمایہ کاری میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔چائنا ڈیلی کی ایک رپورٹ کے مطابق بی آر آئی کے اجرأ کے بعد اُنیس افریقی ممالک میں بیجنگ نے توانائی کے شعبے میں چھتیس منصوبوں کی فنڈنگ کی ہے جن میں زیادہ تر پن بجلی اور شمسی توانائی کے پلانٹس شامل ہیں۔ چین کو درپیش اقتصادی استحکام اور مالی و ماحولیاتی استحکام بڑے چیلنجز ہیں جن سے بیجنگ کو نمٹنا ہوگا تاکہ بی آر آئی کو حقیقی معنوں میں شراکت دار ممالک کے لئے فائدہ مند بنایا جاسکے۔