تیئس سال قبل گیارہ ستمبر دوہزارایک کو پوری پاکستانی قوم بانی پاکستان قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی برسی منا رہی تھی اور اس سلسلے میں مختلف یادگاری تقریبات جاری تھیں کہ اچانک امریکہ کے شہر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے والے طیارے کی فوٹیج بریکنگ نیوز کے طور پر ٹی وی سکرین پر نشر ہونے لگی۔ میڈیا میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ کی معاشی طاقت کی علامت کو نشانہ بنانے کے لئے دو مسافر طیاروں کو ہائی جیک کیا گیا۔ نائن الیون کا المناک واقعہ دوسری جنگ عظیم کے دوران پرل ہاربر حملے کے بعد امریکی سرزمین پر دوسرا بڑا حملہ سمجھا جاتا تھا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ٹی وی چینلز پر ”امریکہ انڈر اٹیک“ کی صورت خبریں نشر ہونے لگی تھیں۔ نائن الیون سانحے کے فوراً بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش ٹی وی پر نمودار ہوئے اور عالمی سطح پر ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے آغاز کا اعلان کیا۔ انہوں نے افغان سرزمین پر موجود انتہا پسند عناصر کو حملوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ امریکہ مجرموں کے خلاف سخت کاروائی کرے گا۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی برادری اس بات پر قائل تھی کہ اس حساس معاملے پر امریکہ کا ساتھ دینے اور غیر جانبداری کے مظاہرے کا کوئی آپشن نہیں ہے۔ جب پوری بین الاقوامی برادری نے امریکہ کی حمایت کا فیصلہ کیا تو طالبان کے تحت افغانستان نے بش انتظامیہ کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں افغانستان میں فوجی حملہ ہوا‘ جو امریکی تاریخ میں بیس سال کی طویل ترین جنگ تھی‘ جو دوہزار اکیس میں ختم ہوئی اور اس کے بعد طالبان حکومت کی واپسی ہوئی۔امریکہ نے سال دوہزار ایک میں افغانستان میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا تھا اور عالمی برادری نے اس مشن میں امریکہ کی مکمل حمایت کی تھی۔ تاہم دو دہائیوں کے بعد‘ افراتفری کے درمیان افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء نے بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ میرے خیال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکی قیادت والی اتحادی افواج افغان سرزمین سے طالبان کا خاتمہ کرنے میں کامیاب رہیں۔ اگر ہم اسے حقیقت پسندانہ طور پر دیکھیں تو طالبان نے کابل پر پہلے سے کہیں زیادہ طاقت اور شان و شوکت کے ساتھ قبضہ کر لیا ہے۔ انخلاء کے وقت امریکہ نے اپنا جدید فوجی سازوسامان وہیں چھوڑ دیا۔ اس سال پندرہ اگست کو طالبان نے کابل واپسی کی تیسری سالگرہ منا کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان حکومت کی جانب سے سابق امریکی زیر قبضہ ائر بیس بگرام میں ایک متاثر کن فوجی پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس موقع پر چینی اور ایرانی سفارت کاروں سمیت متعدد بین الاقوامی سفارت کار بھی موجود تھے۔ تین سال پہلے دس ستمبر دوہزاراکیس کو دی نیوز میں ”خوشحال خطہ“ کے عنوان سے شائع کالم میں راقم الحروف نے اُن پیشگوئیوں کا حوالہ دیا تھا جن کے مطابق افغانستان کا مشکل دور جلد ہی ختم ہونے والا تھا“ یہ پیش گوئی بھی کی گئی تھی کہ ”افغانستان نہ صرف داخلی استحکام ہی نہیں حاصل کرے گا بلکہ خطے کی ایک مضبوط معاشی طاقت کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئے گا۔ اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک باضابطہ طور پر افغان طالبان کے کنٹرول کو جائز تسلیم نہیں کرتا۔ میرے خیال میں یہ ایک تشویش ناک اور خطرناک علامت ہے کیونکہ سلطنتوں کا قبرستان سمجھے جانے والے افغانستان کو اگر جدید بین الاقوامی برادری کا حصہ نہ بنایا گیا تو ایک اور بڑے سانحے کا خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکے گا۔پاکستان اُنیس سو نوے کی دہائی میں طالبان کے سابقہ دور حکومت میں خوشگوار اتحادی رہا تاہم نائن الیون کے بعد پاکستان ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ میں امریکہ کا صف اول (فرنٹ لائن) اتحادی بن کر ابھرا۔ پاکستان کے نکتہ نظر سے بھی ایک سوال اہم ہے کہ طالبان کی کابل واپسی کے ہماری علاقائی سا لمیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس صورتحال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی پاکستان کے لئے داخلی سلامتی‘ نظریاتی تنازعات اور سفارتی تعلقات میں پیچیدگیوں کا سبب بن رہی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رامیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بھارت اور بین الاقوامی دہشت گردی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ناقابل فراموش شہادت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام