سنگین خطرہ : انسداد پولیو جدوجہد

گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشی ایٹو کے مطابق سال دوہزاربائیس میں پاکستان میں چار کروڑ تیس لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جانے کے بعد ملک نے ستائیس جنوری دوہزاربائیس کو ”پولیو فری“ ہونے کا تاریخی سنگ میل عبور کیا لیکن بدقسمتی سے اسی سال تیئس اپریل کو پاکستان میں مسلسل پندرہ ماہ تک پولیو سے چھٹکارا پانے کے بعد پولیو کا پہلا کیس سامنے آیا۔ نومبر دوہزاربائیس میں‘ کوئٹہ میں ایک خودکش بم دھماکہ ہوا جس میں پولیو کارکنوں کی حفاظت پر مامور ایک پولیس وین کو نشانہ بنایا گیا اُس حملے میں تین افراد ہلاک اور ستائیس زخمی ہوئے تھے۔ اٹھائیس جون دوہزارچوبیس کو پاکستان پولیو ایریڈیکیشن پروگرام کی جانب سے بتایا گیا کہ ملک میں پولیو کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اگرچہ بہت سے ممالک نے کامیابی کے ساتھ پولیو کا خاتمہ کر دیا ہے لیکن جیسے جیسے پاکستان میں پولیو تیزی سے پھیلنے کا موسم قریب آ رہا ہے، بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ایک جلتا ہوا سوال موجود ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان سے پولیو کا خاتمہ کیوں نہیں ہو پاتا؟ پولیو وائرس دراصل کیا ہے اور اتنا چھوٹا سا جاندار کس طرح کسی شخص کو مفلوج کر سکتا ہے، اس کا تعلق پیکورنا وائرس خاندان سے ہے، جس میں پروٹین کوٹ اور آر این اے جینوم شامل ہے۔ پولیو وائرس دماغ ی اسٹیم یا ریڑھ کی ہڈی کو نشانہ بناتا ہے اور مرکزی اعصابی نظام (سی این ایس) میں پھیلنے کے بعد فالج کا باعث بنتا ہے۔ جیسا کہ وائرس موٹر نیورونز (اعصابی خلیات) کو تباہ کرتا ہے، ہڈیوں کے عضلات جواب دینے کی اپنی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ یہ بیماری نقل و حرکت کی کمی کی وجہ سے ایک ایسی حالت کا باعث بنتی ہے جسے شدید فلیکڈ فالج کہا جاتا ہے۔ عام طور پر پولیو بازو کے عضلات کے بجائے مریض کی ٹانگوں کے عضلات کو متاثر کرتا ہے تاہم وسیع پیمانے پر ایسے کیسز بھی ریکارڈ کئے گئے ہیں جہاں کواڈریپلجک اثرات دیکھے گئے، جس کا مطلب ہے کہ مریضوں کی گردن مفلوج پائی گئی۔ انتہائی سنگین صورتوں میں، جسے بلبر پولیو بھی کہا جاتا ہے، وائرس انسانی جسم کے دماغ کو متاثر کرتا ہے، جس سے نگلنے، بولنے اور یہاں تک کہ سانس لینے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔ چونکہ جسم آہستہ آہستہ سانس کی مدد فراہم کرنا چھوڑ دیتا ہے، بلبر پولیو بھی موت کا سبب بن سکتا ہے۔پاکستان نے پولیو کے خاتمے کے مو¿ثر اقدامات اور مہمات کے ذریعے پولیو وائرس کا مقابلہ کیا ہے اور پولیو ورکرز گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہے ہیں۔ سال دوہزارپانچ تک پاکستان میں پولیو کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کے باعث اس بیماری کے خاتمے کی امیدیں زیادہ تھیں تاہم قبائی اضلاع میں امریکی ڈرون حملوں کے آغاز نے صورتحال کو تبدیل کر دیا۔ پولیو ویکسین کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ کیا اسلام میں اس کی اجازت ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان پولیو ایریڈیکیشن پروگرام نے کہا ہے کہ ”اورل پولیو ویکسین (او پی وی) محفوظ ہے اور اسے دنیا بھر کے اسلامی رہنما¶ں نے حلال قرار دیا ہے۔ الازہر یونیورسٹی کے گرینڈ شیخ طنطاوی، سعودی عرب کے مفتی اعظم اور انڈونیشیا میں الماس کی مجالس کونسل کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام صوبوں میں تمام مکاتب فکر کے مفتیان کرام نے بھی اسے حلال قرار دیا ہے۔“ پولیو کے قطرے پلانے سے متعلق تصورات، خرافات اور مفروضوں کے تسلسل کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ انسداد پولیو مہمات کے ساتھ آگاہی مہم بھی شروع کی جائے اور عوام تک درست معلومات اور حقائق پہنچائے جائیں۔ دنیا پولیو کے خاتمے کے لئے پاکستان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اگر یہ کوششیں جاری رہیں تو بہت جلد پاکستان دنیا کے اُن آخری دو ممالک کی فہرست سے خارج ہو جائے گا جہاں پولیو اب بھی انسانی زندگی کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر صدف نوشاد۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)