آبادی میں کمی‘ دعوے اور تضادات

سال دوہزارتیئس میں بھارت نے چین کو آبادی میں پیچھے چھوڑا اور آج بھارت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ سال دوہزاراکیس میں 1.413 ارب تک پہنچنے کے بعد‘ چین کی آبادی اگلے دو سالوں میں 1.409 ارب تک سکڑ چکی ہے۔ بیجنگ‘ جس نے 1980ء میں ہر خاندان کے لئے ایک بچے کی پالیسی کا اعلان کیا تھا اور بعد میں اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کیا لیکن سال دوہزارسولہ میں چین نے اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے فی خاندان دو بچوں کی پالیسی متعارف کروائی اور سال 2021ء میں خاندانوں کو تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دیدی گئی۔ اس پالیسی میں ان مردوں اور عورتوں کے لئے مالی اور غیر مالیاتی فوائد (جیسے تنخواہ والی چھٹیاں) کے ساتھ اضافہ کیا گیا جو اپنے خاندانوں کو بڑھانے کا انتخاب کرتی ہیں تاہم ابتدائی اعداد و شمار کے ساتھ مروجہ سماجی رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ چین میں فی خاندان تین بچوں کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ 
کئی دیگر ممالک، خاص طور پر ترقی یافتہ معیشتوں کو آبادی میں کمی کا سامنا ہے۔ دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت اور ایشیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک جاپان میں آبادی سال دوہزار آٹھ میں عروج پر تھی اور پھر اس میں کمی آنا شروع ہو گئی۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ رواں صدی کے آخر تک جاپانی آبادی چوٹی کی سطح سے پچاس فیصد تک سکڑ جائے گی۔ جنوبی کوریا‘ اعلیٰ معیار کی ترقی میں ایشیا کی سب سے بڑی کامیابی میں سے ایک ہے اور یہ دنیا میں سب سے کم شرح پیدائش رکھتا ہے۔ جاپان کی طرح جنوبی کوریا کی آبادی بھی رواں صدی کے اختتام پر اکیاون ملین کی موجودہ سطح سے آدھی رہ جائے گی۔ مذکورہ بالا ممالک اور اس طرح کے دیگر ممالک میں آبادی میں کمی تشویش کا باعث کیوں ہونی چاہیے؟ ایک اصول کے طور پر‘ آبادی میں کمی کے ساتھ متوقع عمر میں اضافہ ہو رہا ہے اور کل آبادی میں بوڑھے لوگوں کا حصہ بڑھ رہا ہے۔ چین میں پینسٹھ سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کل تعداد آبادی کا چودہ فیصد ہے اور سال دوہزارپچاس تک یہ تعداد پچیس فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے۔ جاپان میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد اُنتیس فیصد ہے جو دنیا میں کہیں بھی سب سے زیادہ ہے اور سال دوہزارچالیس تک ان کی تعداد پینتیس فیصد ہو جائے گی۔ اس وقت جنوبی کوریا کے اُنیس فیصد شہریوں کی عمر پینسٹھ سال یا اس سے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں اِن ممالک میں سماجی تحفظ کے اخراجات کافی حد تک بڑھ جائیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ لیبر فورس بھی سکڑ جائے گی اور معاشی پیداوار میں گراوٹ آئے گی۔بہت سے ترقی پذیر ممالک کو نسبتا زیادہ آبادی میں اضافے کا سامنا ہے۔ اس
 کی ایک مثال پاکستان ہے۔ رواں صدی کے آغاز میں پاکستان کی آبادی 139.55ملین تھی جو 2017ء تک بڑھ کر 207.77 ملین ہو گئی اور اس میں مجموعی طور پر 49 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سال 2023ء کی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 241.5 ملین ہے جس کا مطلب ہے کہ 23سالوں میں ہماری آبادی میں 73فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کی اوسط سالانہ شرح 3.2فیصد بنتی ہے۔ نوجوانوں کا بڑھنا آبادی میں تیزی سے اضافے کا ایک اہم نتیجہ ہے کیونکہ چونسٹھ فیصد سے زیادہ لوگ تیس سال سے کم عمر کے ہیں۔ لانسیٹ کے مطالعے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ سال  2049ء تک پاکستان کی آبادی 314ملین تک پہنچ جائے گی اور نوجوان آبادی کا حجم جتنا زیادہ ہوگا، افرادی قوت کی فراہمی اتنی ہی زیادہ ہوگی اور بڑھاپے یا ریٹائرمنٹ کے بعد کے فوائد پر خرچ بھی اتنا ہی کم ہوگا۔  (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسین ایچ زیدی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)