جنگ کی تیاریاں 

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی حالیہ اشتعال انگیزی نے ماسکو اور نیٹو کے درمیان ممکنہ فوجی تصادم کا خطرہ پیدا کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیوٹن یوکرین کے مطالبے پر برہم ہیں کہ انہیں اسٹورم شیڈو میزائل استعمال کرنے کی اجازت دی جائے‘ جو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل ہیں اور یہ روسی علاقے کے اندر ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ روسی صدر نے متنبہ کیا ہے کہ اس طرح کے مطالبے کو قبول کرنا روسی فیڈریشن کیخلاف اعلان جنگ کے مترادف ہوگا۔ روسی صدر کے اس بیان نے دنیا بھر کے امن پسندوں میں خوف پیدا کر رکھا ہے‘ جن کا ماننا ہے کہ اس طرح کے خطرات دنیا کو جوہری ہولوکاسٹ کی طرف لے جا رہے ہیں جو نہ صرف روس اور یورپ کو ختم کر دیں گے بلکہ اس کے تباہ کن عالمی نتائج بھی ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماسکو اور برسلز کے درمیان کشیدگی کم کرنے کیلئے فوری کوششیں کی جانی چاہئیں اور امریکہ بھی صورتحال کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے تاہم‘ مغربی ممالک اس طرح کے خدشات کو مسترد کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ روسی قیادت کے بیانات دھوکے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یوکرین کو ماسکو کے خلاف طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے استعمال کی اجازت دی جانی چاہئے۔ وہ یوکرین کی قیادت کی اس دلیل کی حمایت کرتے ہیں کہ ان میزائلوں کے استعمال کی اجازت دینے سے روسی حملے سست پڑ جائیں گے‘ جس نے پہلے ہی شدید تباہی مچائی ہے اور لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں اور اس کے نتیجے میں یوکرین کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے۔ مغربی دارالحکومتوں کا خیال ہے کہ اس طرح کی اجازت دینے سے روس ناراض ہو سکتا ہے‘ جو اس کے بعد امریکہ کی زیر قیادت فوجی اتحاد کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال سمیت کسی بھی اقدام کا سہارا لے سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روس اور نیٹو کے درمیان تصادم انتہائی تباہ کن ثابت ہو گا اور جس سے انسانیت کے وجود کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے واضح رہے کہ اسٹورم شیڈو 
میزائل لانچ سائٹ سے ڈھائی سو کلومیٹر تک ہدف تک پہنچ سکتے ہیں۔ بعض دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یوکرین کو ان میزائلوں کے استعمال کی اجازت دی گئی تو اس سے روسی دفاعی لائنوں کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ یہ میزائل بنکرز میں گھسنے کے ساتھ گولہ بارود کے ذخیروں اور ہوائی اڈوں کو بھی نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میزائلوں کو اینگلو فرانسیسی تعاون سے تیار کیا گیا تھا جس میں اٹلی بھی شامل تھا اور اس کی ساخت میں استعمال ہونے والے اجزاء امریکہ کی طرف سے فراہم کئے گئے تھے۔ نتیجتاً انکے استعمال سے منسلک شرائط میں کسی بھی تبدیلی کیلئے چاروں ممالک سے منظوری کی ضرورت ہوگی‘ چاہے وہ خود براہ راست سپلائرز نہ ہوں۔ یہ چاروں ممالک نیٹو کے اہم رکن ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ روس سمجھتا ہے کہ یوکرین کو ان میزائلوں کے استعمال کی اجازت دینا اعلان جنگ ہے۔ اگرچہ یوکرین کے پاس پہلے سے ہی یہ میزائل موجود ہیں‘ لیکن فی الحال وہ انہیں صرف اپنے علاقے میں استعمال کرنے کا مجاز ہے۔ اس پورے معاملے پر یوکرین کے حامیوں کا کہنا ہے کہ پیوٹن کی دھمکیوں کو نظر انداز کیا جانا چاہیے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عبدالستار۔ ترجمہ ابوالحسن امام)