بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں دس سال بعد تین مرحلوں میں انتخابات کا عمل جاری ہے اور نتائج کا اعلان چار اکتوبر کو کیا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں انتخابی عمل ہمیشہ ہی سے تنازعات، جوڑ توڑ اور شفافیت کے فقدان کا شکار رہا ہے۔ مزید برآں، 1990ء کے بعد سے آزادی کی حامی سیاسی جماعتوں اور عسکریت پسند گروہوں نے متعدد انتخابی مراحل کی شدید مخالفت اور بائیکاٹ کیا ہے تاہم ماضی کے طریقوں کے برعکس اس مرتبہ انتخابات میں انتخاب مخالف جذبات سامنے نہیں آئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے متعدد ارکان اور آزادی کی حامی جماعتوں کے سابق کارکن، جنہوں نے کبھی انتخابی بائیکاٹ کی مہم کی قیادت کی تھی اور انتخابی عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا، اب انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جس سے انتخابات میں عوامی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔اٹھارہ ستمبر سے شروع ہونے والے نوے رکنی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے تقریبا نوے لاکھ افراد رجسٹرڈ ہیں۔ اس سال اپریل اور مئی میں بھی کشمیریوں نے بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشنوں پر نکل کر زبردست انداز میں اپنا ووٹ ڈالا جس نے سب کو حیران کر دیا۔ بہت سے کشمیریوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ووٹ دیا کہ بی جے پی کے پراکسی امیدواروں کو
قومی پارلیمنٹ تک رسائی حاصل نہ ہو۔ کشمیر کے مسلمانوں اور دیگر سیکولر عناصر کو انتخابات کے ذریعے کشمیر میں سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کی بی جے پی کی مسلسل کوششوں کو روکنے پر تشویش ہے۔ اس تناظر میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے مل کر مشترکہ امیدوار کھڑے کئے جس سے دیگر جماعتوں کے مقابلے میں ان کی انتخابی کامیابی کے امکانات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس مل کر جموں خطے میں قابل ذکر انتخابی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں، جسے روایتی طور پر بی جے پی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ بی جے پی کو جموں میں بھی مخالف جذبات کا سامنا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی امیدواروں کو وادی کشمیر کی 47 اسمبلی نشستوں میں سے صرف 19 پر انتخاب لڑنا پڑا۔ اگست 2019ء میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے کشمیریوں کی ترجیحات ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہیں۔ وادی کشمیر کے عوام بی جے پی کے قوم پرست اور ہندوتوا ایجنڈے سے ذلت اور خطرہ محسوس کرتے ہیں‘ جسے وہ ہر طرح سے مقبوضہ کشمیر پر مسلط کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اب مقبوضہ کشمیر میں وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ عوام کو سیاسی عمل میں حصہ لینا چاہئے تاکہ بی جے پی کو قدم جمانے سے روکا جا سکے۔ اس بات سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود کہ اس کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی کمزور ہوگی، محدود قانون سازی، انتظامی اور مالی اختیارات کے ساتھ، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بی جے پی کو روکنا ضروری ہے۔ درحقیقت دہلی کے ذریعہ مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر آنے والے انتخابات میں منتخب ہونے والے چیف منسٹر سے زیادہ انتظامی اور مالی اختیارات برقرار رکھیں گے۔بی جے پی نے خطے کو ’ہندوائز‘ کرنے کی کوشش میں کشمیری شناخت‘ اس کے اسلامی کردار اور ثقافتی ورثے کو مٹانے کے علاوہ مختلف اداروں میں اپنے کارکنوں کو کلیدی عہدوں پر تعینات کیا ہے جبکہ کشمیری سیاسی عمل میں حصہ لے کر اور سیاسی اداروں پر کنٹرول حاصل کرکے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ بی جے پی کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے
انتخابات میں حصہ لینے والی دیگر تمام سیاسی جماعتیں جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کرنے کے اپنے وعدے عوام کو یاد دلا رہی ہیں۔ ماضی کے برعکس اس مرتبہ انتخابی مہم میں قومی مسائل پر کم توجہ دی گئی ہے۔ ان انتخابات میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے کشمیر میں ”دودھ اور شہد“ کی نہریں بہا دی ہیں تاہم زمینی حقائق مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ خطے میں خوف و ہراس اب بھی موجود ہے‘ عسکریت پسندی بدستور جاری ہے اور یاسین ملک اور شبیر احمد شاہ سمیت سیکڑوں آزادی پسند سیاسی رہنما اور کارکن بغیر کسی مقدمے کے بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ کشمیری میڈیا کو دبایا جا رہا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ بار ایسوسی ایشن اور دیگر تجارتی گروپوں کو ریاست نے خاموش کرا دیا گیا ہے۔ اختلافی آوازوں کو اُٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حقیقی ترقی کا فقدان ہے۔ اس کے بجائے مودی حکومت نے اس مقبوضہ علاقے کو یہاں کے زندہ بچ جانے والوں کے لئے شہر خموشاں اور قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ارشاد محمود۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)