نیا محاذ جنگ 

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی جاری ہے۔ موصول ہونے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیل کی جانب سے لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حالیہ حملوں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ سترہ ستمبر کے روز لبنان کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں پیجر (pagers) نامی مواصلاتی آلات پراسرار طور پر پھٹ گئے۔ اس کے نتیجے میں آٹھ سالہ بچی سمیت کم از کم 9 افراد کی ہلاکت ہوئی جبکہ اٹھائیس سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ لبنان میں ہوئے مواصلاتی آلات کے ان پراسرار دھماکوں کی لہر جاری ہے جس میں مزید کم از کم 20 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بیروت میں تعینات ایرانی سفیر مجتبیٰ عمانی بھی پیجر ڈیوائسز کے حالیہ دھماکوں میں زخمی ہوئے ہیں۔ کچھ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں بھی اسی طرح کے پراسرار دھماکے ہوئے اگرچہ یہ واضح نہیں کہ پیجر ڈیوائسز کو بیک وقت کیسے اڑایا گیا لیکن ان دھماکوں کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ حزب اللہ کے عہدیداروں نے سمارٹ فون لوکیشن ٹریکنگ ٹیکنالوجی کے خطرے کو کم سے کم کرنے کے لئے یہ پیجر ڈیوائسز بیرون ملک سے منگوائی تھیں۔ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد ان ڈیوائسز میں دھماکہ خیز مواد نصب کرنے میں کامیاب رہی جسے ایک خفیہ کوڈ میسج بھیج کر بیک وقت دھماکے سے اڑادیا گیا۔ تاہم مینوفیکچرنگ کمپنی کے بانی نے واضح طور پر ان کے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ دریں اثنا اسرائیل کی جانب سے اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ بلاشبہ اسرائیل کے پاس جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کو خودکار ڈرونز‘ کار بموں اور ریموٹ کنٹرول مشین گنوں اور ڈیٹونیٹنگ ڈیوائسز کی شکل میں استعمال کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے جس کے ذریعے اسرائیل اپنے مخالفین کو چن چن کر نشانہ بناتا ہے اور یہ عالمی قوانین و انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے کہ بنا کسی ثبوت ہزاروں کی تعداد میں افراد کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ حال ہی میں حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کو تہران میں پراسرار طور پر نشانہ بنانا اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا۔ اس سے قبل ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخرزادہ کو بھی تہران میں سفر کے دوران ریموٹ کنٹرول مشین گن سے قتل کیا گیا تھا۔زمانہ قدیم سے لے کر جدید دور تک انسان مختلف قسم کے تنازعات میں ملوث رہا ہے تاہم جنگ ایک پیچیدہ اور مشکل صورتحال کی عکاسی کرتی ہے جس میں کبھی کبھی ایک فریق بالادست نظر آتا ہے اور کبھی دوسرے کو حتمی فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ہم جدید تاریخ کا مطالعہ کریں تو پچھلی صدی میں دو عظیم جنگیں لڑی گئیں۔ ان عالمی جنگوں کے دوران انسانی خون پانی کی طرح بہایا گیا لیکن آخر کار فریقین اس بات پر متفق ہوئے کہ جنگیں کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہیں اور تنازعات کا دیرپا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کیا جاسکتا ہے۔تاریخی طور پر فلسطین کا تنازعہ پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد شروع ہوا جبکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد صہیونی ریاست کے باضابطہ قیام نے اس تنازعے کو مزید تیز کر دیا۔ آج اسرائیل جسے مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے، واضح طور پر جدید ٹیکنالوجی کے معاملے میں فلسطینیوں اور اس کے عرب ہمسایوں سے بہت آگے ہے۔ تاہم سات اکتوبر کے روز اسرائیل پر ہوئے حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل کی انٹیلی جنس فول پروف دفاعی حکمت عملی وضع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آج عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو ایک اور عظیم جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھے اور مشرق وسطیٰ کے تنازعے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اکیسویں صدی کا میدان جنگ سائبر مہارت، مصنوعی ذہانت، جوہری ہتھیاروں اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز سے لیس ہے۔ آج کے جدید انفارمیشن دور میں ٹیکنالوجی کسی فرد یا ریاست کی میراث نہیں ہے۔ اگر آج ایک فریق پراسرار ٹیکنالوجی کو آزادانہ طور پر استعمال کر رہا ہے تو کل وہی ٹیکنالوجی دوسروں کے ہاتھوں میں ہو سکتی ہے۔ ہمیں اُس دن اور اُس خطرے کے بارے میں سوچنا چاہئے جب ہماری جیبوں اور ہاتھوں میں موجود موبائل فون بھی  پھٹنے لگیں گے! جنگ میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے کوئی بھی ملک محفوظ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا اور یہ بات کہنا درست ہے کہ آج کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رامیشن کمار وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)