یکم اکتوبر کو عوامی جمہوریہ چین نے عہد جدید میں اپنے قیام کے 75 سال مکمل کئے‘ اِس عرصے میں چین نے غربت اور پسماندگی کو ختم کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی قیادت میں مثالی طرز حکمرانی کی وہ عملی مثالیں قائم کیں جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ چین کے سب سے بڑے اور سب سے ترقی یافتہ شہر شنگھائی کی سیاحت کا موقع ملنے پر وہاں کی ہمہ جہت ترقی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اُور تحقیق سے معلوم ہوا کہ چین کے عروج کا آغاز ین یانگ فلسفے کی وجہ سے ہے۔ قدیم چینی مکتبہ تاؤ ازم سے شروع ہونے والے ین یانگ کی نمائندگی دو حصوں پر مشتمل ہے: اسے ایک دائرے کی صورت سمجھتے ہوئے دائرے کا ایک سیاہ حصہ جس میں ایک سفید نقطہ ہے جسے ین کہا جاتا ہے اور دائرے کے دوسرے حصے میں ایک سفید حصہ جس میں ایک سیاہ نقطہ ہے‘ جسے یانگ کہا جاتا ہے۔ اِس ین یانگ میں قدرتی اور معاشرتی دونوں نظاموں کی مخالف قوتیں زندگی اور موت‘ دن اور رات‘ طاقت اور کمزوری‘ منفی اور مثبت اور ایک دوسرے کی ضرورت اور توازن کو بیان کیا گیا ہے۔ ین یانگ فلسفے کی دو کلاسیکی توثیقیں بیسویں صدی میں سرمایہ داری کا عروج اور چینی ترقیاتی ماڈل کی کامیابی ہیں۔ جب کمیونسٹ حکمرانوں کو خطرے کا سامنا کرنا پڑا، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد کے بین الاقوامی نظام میں پورے یورپی براعظم کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا تب سرمایہ دارانہ نظام، جو فطری طور پر مزدور مخالف نظام ہے، پھیلنے لگا۔ بدلتے ہوئے حالات پر سرمایہ دارانہ ردعمل مغربی ممالک میں مزدور نواز قانون سازی سے شروع ہوا اور فلاحی ریاست کے عروج پر منتج ہوا۔ 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ کمیونزم کا یورپ سے صفایا ہو گیا۔ دوسری طرف چین نے ”چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم“ کے فلسفے کو اپنا کر ریاستی مارکیٹ کے تضاد پر قابو پایا‘ جس کے تحت دنیا کے لئے بند اور سوشلسٹ معیشت کو مجموعی طور پر ریاستی کنٹرول چھوڑے بغیر آہستہ آہستہ اور احتیاط سے مارکیٹ کی قوتوں اور غیر ملکی مسابقت حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ پھر اس تجربے کو کامیابی ملی ہے اور اس نے زرعی معیشت کو صنعتی پاور ہاؤس میں تبدیل کر دیا۔ یہ چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم کو ہر دور کے سب سے طاقتور سیاسی فلسفوں میں سے ایک بناتا ہے اور آسانی سے موجودہ دور کا سب سے طاقتور نظام ہے۔عوامی جمہوریہ چین کے نئے عہد کا آغاز چیانگ کائی شیک کی سربراہی میں قوم پرستوں اور بعدازاں ماؤ زے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹوں کے مابین دو دہائیوں سے زیادہ طویل خانہ جنگی کا نتیجہ تھی۔ واشنگٹن کی حمایت یافتہ قوم پرستوں کو تائیوان کے چھوٹے سے جنوبی جزیرے کی طرف بھاگنے پر مجبور کیا گیا جسے سوشلسٹ نظریات کے مطابق جنگ زدہ معیشت کی تشکیل کے سخت چیلنج کا سامنا تھا۔ پارٹی نے تین ابتدائی اہداف تھے۔ سوشلسٹ معیشت قائم کرنا۔ وسیع پیمانے پر زمینی اصلاحات متعارف کروانا اور چین کو یو ایس ایس آر کی طرز پر صنعتی طاقت بنانا، جو اپنے وقت کا انتہائی کامیاب سوشلسٹ ملک تھا۔ ماؤ اور ان کے ساتھیوں کی قیادت میں اور عوامی حمایت اور انقلابی جوش و جذبے کے ساتھ پارٹی اور ریاست نے ان مقاصد کے حصول کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا۔ چین نے اپنا پہلا پانچ سالہ منصوبہ 1952ء میں اور دوسرا 1958ء میں پیش کیا گیا۔ پانچ سالہ منصوبہ آج تک اقتصادی ترقی کے لئے چینی حکومت کا اہم خاکہ ہے۔ ان دو منصوبوں کے تحت دیہی علاقوں میں زمین کی فرقہ وارانہ ملکیت اور شہروں میں ریاستی ملکیت قائم کی گئی۔ صنعت کاری کو رفتار دینے کے لئے ”دی گریٹ لیپ فارورڈ“ کے نام سے پالیسی کا اعلان کیا گیا اگرچہ مذکورہ پالیسی پر ”بہت زیادہ پرعزم“ ہونے اور ”بے ترتیب“ انداز میں عمل پیرا ہونے کی وجہ سے منفی تنقید بھی کی گئی لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ چین نے صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی۔1976ء میں ماؤ زے تنگ دور کے خاتمے تک‘ چین ایک سوشلسٹ اور ایسی معیشت تھا جس نے اپنے دروازے دنیا پر بند کر رکھے تھے۔ صرف یو ایس ایس آر اور کچھ دیگر سوشلسٹ ریاستوں کے ساتھ تجارت کرتا تھا۔ سنہ 1949ء سے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے چین پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں لہٰذا چین کے پاس مغرب کے ساتھ تجارت کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہ پابندی 1972ء میں امریکی صدر نکسن کے تاریخی دورہئ چین کے بعد اُٹھا لی گئی تھی‘ جس میں اسلام آباد نے بھی سہولت کاری کی تھی۔ واشنگٹن کو عوامی جمہوریہ کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے میں مزید سات سال لگے۔ ماؤ کے بعد ملک کے سب سے بڑے رہنما کی حیثیت سے ڈینگ شیاؤ پنگ نے محسوس کیا کہ اگر چین کو پائیدار اور تیز رفتار ترقی حاصل کرنی ہے تو اسے سوشلسٹ معیشت کو نجی شعبے اور غیر ملکی کاروباری اداروں دونوں کے لئے کھولنا ہوگا اور سخت سیاسی کنٹرول میں نرمی کئے بغیر معاشی مساوات پسندی میں نرمی کی اجازت دینی ہوگی۔ 1960ء میں چینی معیشت کا حجم صرف ساٹھ ارب ڈالر تھا جو 2003ء میں بڑھ کر تقریباً اٹھارہ کھرب ڈالر ہو گیا۔ عالمی اقتصادی پیداوار میں چین کا حصہ 1960ء میں چار اعشاریہ چار فیصد سے بڑھ کر 2023ء میں سترہ فیصد ہو گیا۔ فی کس آمدنی 90 ڈالر سے بڑھ کر 12ہزار ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ برآمدات اس عرصے کے دوران اکیس ارب ڈالر سے بڑھ کر 3.2 کھرب ڈالر تک پہنچ گئیں جس سے چین دنیا کی فیکٹری اور سب سے بڑا عالمی برآمد کنندہ بن گیا اگرچہ چین کی اقتصادی کامیابیاں حیرت انگیز رہی ہیں لیکن انہوں نے کئی عدم توازن بھی پیدا کئے اور ترقی بڑی حد تک ساحلی علاقوں یا مشرقی چین تک محدود رہی جبکہ مغربی علاقے بہت پیچھے رہے۔ آمدنی عدم مساوات کا شکار رہی اور گھریلو کھپت کو کم کیا گیا جبکہ ماحولیاتی خدشات کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا گیا۔موجودہ چینی رہنما شی جن پنگ نے 2012ء میں اقتدار سنبھالا تو انہوں نے ان عدم توازن کو دور کرنے کا فیصلہ کیا اور نیا ترقیاتی نمونہ متعارف کرایا گیا جسے ”نئے دور کے لئے چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم“ کا نام دیا گیا۔ ترقی کا یہ معیار محض ترقی کی سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ برآمدات اور کارپوریٹ منافع میں اضافے پر گھریلو طلب اور شہریوں کے معیار زندگی کو ترجیح دی گئی اور ابتدائی طور پر نظر انداز کئے گئے علاقوں کو حکومت کی توجہ حاصل ہونے لگی۔ ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کے چین نے 2030ء تک کاربن کے اخراج کو عروج پر پہنچانے اور 2060ء سے پہلے ملک کو کاربن سے پاک کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسین ایچ زیدی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
ہتھیار برائے امن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک بھارت تعلقات: نازک صورتحال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بٹ کوائن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک امریکہ تعلقات: ترقیاتی امکانات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی سیاست اور دفاعی اخراجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
فضائی آلودگی اور ہمارے شہر
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام