سنہری موقع: شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کی میزبانی پاکستان کے لئے بڑا اعزاز ہے جس میں دس رکن ممالک اور یوریشیا کے دو مبصرین شامل ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ عوامی جمہوریہ چین، روس، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان سمیت پانچ ممالک کی قیادت نے 1996ء میں شنگھائی فائیو کی تشکیل کے لئے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ بعد ازاں 2005ء میں ازبکستان کی شمولیت کے بعد اس کا نام تبدیل کر کے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) رکھ دیا گیا۔ سال دوہزارسترہ میں پاکستان اور بھارت بھی باضابطہ طور پر مکمل رکن کی حیثیت سے شامل ہوئے، اس کے بعد ایران اور بیلاروس کا نمبر آیا۔ ہر سال ایک رکن ملک کو اپنے سالانہ اجلاس کی میزبانی کرنی ہوتی ہے جس میں سربراہان مملکت اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہیں۔ ابتدائی طور پر پاکستان میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے حوالے سے بھارتی حکومت کی جانب سے پراسرار خاموشی اختیار کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب باضابطہ طور پر اس بات کی تصدیق کی گئی کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر اسلام آباد کا دورہ کریں گے تو اسے سفارتی محاذ اور عالمی میڈیا میں اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا۔ تقریباً ایک دہائی میں کسی بھارتی وزیر خارجہ کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہوگا کیونکہ سشما سوراج آخری بھارتی وزیر خارجہ تھیں جنہوں نے دوہزارپندرہ میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ جب میں نے بھارت کے اپنے دورے کے دوران انہیں امن کا پیغام پہنچایا تھا تو سشما جی نے خاص دلچسپی دکھائی تھی۔ بدقسمتی سے ان کی وفات کے بعد دو طرفہ تعلقات دن بدن کشیدہ ہوتے چلے گئے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں بھارت کی شرکت کی تصدیق نے میڈیا میں جاری اس بحث کو بھی تیز کر دیا ہے کہ آیا بھارتی وفد کی اسلام آباد آمد سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی۔ گزشتہ سال بھی اسی طرح کی بحث سننے میں آئی تھی جب سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارت میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ پاکستان کو اِس وقت داخلی طور پر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف کچھ ناپسندیدہ عناصر احتجاج کی آڑ میں انارکی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب ریاست مخالف عسکریت پسندوں نے بیرونی طاقتوں کے اشارے پر امن و امان کو سبوتاژ کرنا شروع کر رکھا ہے لہٰذا بین الاقوامی تجزیہ کار پاکستان کی موجودہ صورت حال کو طوفانی قرار دے رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک بیک وقت مختلف اطراف سے چیلنجز کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور بھارت دنیا کے نقشے پر دو منفرد ممالک ہیں جو نہ صرف ہزاروں سال کی مشترکہ تاریخ رکھتے ہیں بلکہ ان کا حال اور مستقبل بھی آپس میں جڑا ہوا ہے۔ اس لئے آپسی تنازعات خوش اسلوبی سے حل کرنے اور تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ بھارت میں رواں سال کے انتخابی نتائج نے مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت کو شدید دھچکا پہنچایا ہے اور اب پرامن عناصر آہستہ آہستہ مضبوط ہو رہے ہیں۔ ماضی میں اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی سمیت کئی بھارتی وزرائے اعظم نے پاکستان کا دورہ کیا لیکن بدقسمتی سے ہم ان کی پاکستان آمد کی وجہ سے سفارتی طور پر اہم کامیابیاں حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ آج شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کی صورت میں پاکستان کے پاس سنہری موقع ہے اور ہمیں امن پسند میزبان ملک کے طور پر مثبت تشخص پیش کرنے کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ راقم الحروف کے خیال میں بھارتی وزیر خارجہ کا دورہئ پاکستان دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے میں بہت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے ٹھوس لائحہ عمل وضع کرنا ہوگا۔ اس وقت پاکستان اور بھارت میں بسنے والے لاکھوں امن پسند لوگوں کی نظریں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی) پر مرکوز ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی قیادت کو عالمی امن، علاقائی استحکام اور عوام کی بہتری کی خاطر تعلقات پر معمول پر لانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رامیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)