بٹ کوائن: متبادل عالمی مالیاتی نظام

عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں امریکہ  کے  فیڈرل ریزرو (مرکزی بینک) نے اس حوالے سے زیادہ نرم مانیٹری پالیسی اپنائی ہے، جو اس کے پچھلے مؤقف سے رجوع ہے۔ دریں اثنا، پیپلز بینک آف چائنا نے بھی ایک ہدف شدہ پیکج نافذ کیا ہے، جس میں شرح سود میں کمی، بینکوں کے لئے ریزرو کی ضرورت کے تناسب میں کمی اور ادارہ جاتی سٹاک کی خریداری کی مالی اعانت کے لئے پانچ سو ارب یوآن مختص کرنے جیسا اقدام شامل ہے۔مزید برآں، کارپوریٹ سٹاک بائی بیک پروگراموں کے لئے الگ سے تین سو ارب یوآن مختص کئے گئے ہیں۔ بینک آف جاپان منفی شرح سود کو برقرار رکھنے کی اپنی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ یورپی مرکزی بینک بھی معیشت کو متحرک کرنے کے لئے شرح سود کم کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔گلوبل لیکویڈیٹی، جو عالمی مالیاتی نظام میں نقد اور دیگر مائع اثاثوں کی کل رقم سے مراد ہوتی ہے، تیزی سے ایک سو کھرب ڈالر تک پہنچ رہی ہے۔ بٹ کوائن نے اِس عالمی لیکویڈیٹی کے ساتھ ایک مضبوط تعلق بنا رکھا ہے اور اس کی قیمتوں کی نقل و حرکت مائع اثاثوں کی دستیابی میں تبدیلیوں کو ٹریک کر رہی ہے۔ جیسے جیسے عالمی لیکویڈیٹی پھیلتی ہے یا سکڑتی ہے، بٹ کوائن کی قیمت میں بھی ردوبدل دیکھنے میں آتا ہے۔سوال: کیا بٹ کوائن عالمی مالیاتی متبادل ہے؟ جواب: جی ہاں‘ اس میں یہ صلاحیت موجود ہے۔ سب سے پہلے، بٹ کوائن ایک غیر مرکزی بلاک چین پر کام کرتا ہے۔ اسے کوئی مرکزی بینک یا کوئی بھی حکومت نہیں چلاتی۔ دوسرا، بٹ کوائن نیٹ ورک پر لین دین سنسرشپ کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، جس سے حکام کے لئے بلاک یا ریورس کرنا ناقابل یقین حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔ تیسرا، بٹ کوائن پروٹوکول اکیس ملین سکوں کی محدود فراہمی کو یقینی بناتا ہے، اسے افراط زر اور مرکزی بینک کی ہیرا پھیری سے بچاتا ہے۔ کرنسی اوور پرنٹنگ اور بڑے پیمانے پر لیکویڈیٹی انجکشن کے دور میں، بٹ کوائن موجودہ عالمی مالیاتی نظام کا متبادل پیش کرتا ہے، ایک متبادل جو قلت کا شکار ہے۔تصور کریں کہ دنیا کی تیئس فیصد آبادی یعنی ایک اعشاریہ آٹھ ارب افراد ہزار کی پیدائش 1981ء سے 1996ء کے درمیان ہے جبکہ اضافی بتیس فیصد کا تعلق جنرل زیڈ سے ہے جن کی پیدائش 1996ء سے 2010ء کے درمیان ہوئی ہے۔ یہ دونوں مل کر، کرہئ ارض کی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ بناتے ہیں۔ یہ نسلیں سمارٹ فونز، سوشل میڈیا اور جدید ڈیجیٹل آلات کی دنیا میں پیدا ہونے والی ڈیموگرافی یعنی آبادی ہے۔ یہ ڈیجیٹل حل کو اپناتے ہیں اور اس ڈیجیٹل انقلاب میں پیش پیش بٹ کوائن ہے۔ پہلی مقامی ڈیجیٹل کرنسی کے طور پر، بٹ کوائن لامرکزیت، خودمختاری اور مالی آزادی کا اِحساس رکھتی ہے۔ اِسے اَگلی نسل کے مالیاتی نظاموں پر بھی سبقت حاصل ہے۔بٹ کوائن کی قدر کا تعلق اس کے ذخیرے سے ہے۔ بٹ کوائن کی سپلائی محدود ہے۔ بٹ کوائن کی ڈی سینٹرلائزڈ بلاک چین ٹیکنالوجی اور مضبوط کرپٹوگرافک الگورتھم اسے محفوظ بنائے ہوئے ہیں۔ معاشی غیر یقینی یا افراط زر کے دور کے دوران‘ سرمایہ کار بٹ کوائن میں ہیج کے طور پر پناہ لیتے ہیں۔ بٹ کوائن انتہائی پیچیدہ ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ ایک بٹ کوائن دوسرے کے مساوی ہے‘ قطع نظر اس کے کہ اس کی اصل یا لین دین کی تاریخ کچھ بھی ہو۔ بٹ کوائن استعمال کرنے اور تجارت کرنے کے لئے آسان ہے۔ بٹ کوائن کو چھوٹے یونٹوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جسے ستوشیس کہا جاتا ہے‘ جس سے لچکدار لین دین اور قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔ بٹ کوائن کو آسانی سے محفوظ اور ڈیجیٹل طور پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ بٹ کوائن پیسے کی روایتی شکلوں کے برعکس جسمانی ٹوٹ پھوٹ یا سنکنرن کے تابع نہیں ہے۔سات اکتوبر کو‘ متحدہ عرب امارات نے تمام کرپٹو لین دین کو ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) سے مستثنیٰ قرار دے کر ایک اہم قدم اٹھایا ہے، جس نے ملک کو عالمی کرپٹو انقلاب کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یہ جرأت مندانہ قدم نہ صرف مجازی اثاثوں کے شعبے کو قانونی حیثیت دیتا ہے بلکہ متحدہ عرب امارات کو کرپٹو کرنسی کا نیا عالمی دارالحکومت بننے کے لئے تیار کرتا ہے۔ جون 2022ء کے بعد سے ادارہ جاتی کرپٹو سرمایہ کاری میں پینتیس ارب ڈالر سے زیادہ کے ساتھ، متحدہ عرب امارات ڈیجیٹل فنانس میں ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہے۔جنوبی کوریا کرپٹو کرنسی سرمایہ کاری میں اٹھارہ ارب ڈالر کو راغب کرنے میں کامیاب رہا ہے‘ جبکہ بھارت نے سات ارب ڈالر حاصل کئے ہیں۔ برازیل، ترکی اور نائجیریا میں سے ہر ایک نے چار ارب ڈالر حاصل کئے ہیں۔ دریں اثنا، ایل سلواڈور نے بٹ کوائن کو قانونی ٹینڈر کے طور پر اپنا کر ایک جرأت مندانہ قدم اٹھایا ہے۔ پیراگوئے کرپٹو کرنسیوں کے لئے ریگولیٹری فریم ورک تیار کر رہا ہے اور ارجنٹائن اور انڈونیشیا کرپٹو کرنسی ایکسچینجز کو ریگولیٹ کرنے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ بھارت کرپٹو کرنسیوں کے بارے میں زیادہ موافق مؤقف کے اشارے دکھا رہا ہے۔ مالٹا ایک ’بلاک چین جزیرہ‘ بنتا جا رہا ہے۔ فلپائن‘ تھائی لینڈ اور ویت نام نے صنعت کے لئے ریگولیٹری رہنما اصول قائم کئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان عالمی مالیاتی نظام میں تبدیلی کے اِن لمحات اور مواقعوں سے فائدہ اٹھائے گا؟ کیا پاکستان بدلتے ہوئے ڈیجیٹل مالیاتی منظرنامے سے ہم آہنگ ہوگا؟ کیا پاکستان ایک کھرب ڈالر کی عالمی ڈیجیٹل معیشت سے جڑے گا یا پھر ڈیجیٹل دور میں دیگر ممالک سے پیچھے رہ جانے کا خطرہ مول لے گا؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)