ایس سی او اجلاس

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس کی میزبانی پاکستان کر رہا ہے جس کے لئے اسلام آباد کو استقبالیہ پیغامات سے سجایا گیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اپنی وسیع رکنیت کے ساتھ، یوریشیا کی اقتصادی اور سیاسی طاقتوں پر مشتمل ہے اور یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو تنہائی سے نکالنے میں بہت مدد فراہم کر سکتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ دیکھی جائے تو بین الاقوامی تعلقات پر دو طرفہ تعلقات کا غلبہ رہا ہے، جس میں پاکستان کا جھکاؤ زیادہ تر مغربی طاقتوں کی طرف رہا اور انحصار نے سفارتی خودمختاری کو متاثر کیا ہے۔پاکستان ان ممالک کے اتحاد کا خیرمقدم کر رہا ہے جو نہ صرف علاقائی اتحادی ہیں بلکہ اہم سیاسی، معاشی اور تکنیکی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، شنگھائی سربراہی اجلاس کی میزبانی پاکستان کو اپنی سفارتی حیثیت کو ازسرنو ترتیب دینے اور اپنے جغرافیائی اور سفارتی افق کو وسیع کرنے کی ضرورت کا موقع ثابت ہوسکتی ہے۔ اس موقع پر مذاکرات کی میز پر سب سے بڑا چیلنج طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان ہے۔ امریکی انخلأ کے بعد پیدا ہونے والی افراتفری نے پاکستان کو مشکل سے دوچار کر رکھا ہے کیونکہ سرحد پار دہشت گردی کا دائمی مسئلہ اب بھی موجود ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی میزبانی پاکستان کو اِن خدشات کو حل کرنے کے لئے ضروری کثیر الجہتی موقع فراہم کر رہی ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کا علاقائی انسداد دہشت گردی ڈھانچہ (آر اے ٹی ایس) ان چند میکانزم میں سے ایک ہے جسکے ذریعے انسداد دہشت گردی کی مربوط کوششوں کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے، خاص طور پر افغانستان کو اگر ان کوششوں میں شامل کیا جائے۔ روس اور چین دونوں ہی طالبان حکومت کے خلاف صورتحال کو پرسکون رکھنے اور افغانستان کے داخلی سلامتی کے معاملات سے نمٹنے کیلئے متحد علاقائی نکتہئ نظر کی وکالت کرتے ہیں جبکہ ضرورت اس بات کو یقینی بنانے کی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی نہ پھیلے۔ پاکستان کے مشرقی محاذ پر بھارت کے ساتھ تعلقات طویل عرصے سے خراب ہیں، خاص طور پر مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بھارت کے ساتھ دشمنی ہے۔ شنگھائی اجلاس میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر شرکت کریں گے جس سے اگرچہ فوری پیش رفت کے امکانات کم ہیں لیکن یہ سربراہی اجلاس پاکستان کو کشمیر کا پرامن حل اور سرحدی کشیدگی میں کمی کا موقع دیتا ہے۔یہ پاکستان کے لئے نادر موقع ہے کہ وہ تنازعہ کشمیر کو ایک ایسے مسئلے کے طور پر اجاگر کرے جو نہ صرف دو طرفہ ہے بلکہ علاقائی سلامتی کے مضمرات کا حامل ہے اور جس پر وسیع تر بین الاقوامی توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی ممکنہ طور پر کثیر الجہتی سفارتکاری کے ذریعے تناؤ کو کم کر سکتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کے علاؤہ پاکستان کو اپنی وسیع تر خارجہ پالیسی کو از سر نو ترتیب دینے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا کا رخ مشرق کی جانب بڑھ رہا ہے، پاکستان چین اور روس جیسے شنگھائی تعاون تنظیم کے پاور ہاؤسز کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرتے ہوئے زیادہ متوازن خارجہ پالیسی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ چین، جو پہلے ہی پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں پاکستان کا شراکت دار ہے، بلاشبہ پاکستان کی اقتصادی اور سلامتی کی حکمت عملیوں میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ دریں اثنا، جنوبی ایشیا میں روس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی پاکستان کو دفاع اور توانائی کے شعبے میں تعاون کی نئی راہیں دکھا رہا ہے خاص طور پر وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر پیوٹن کے درمیان ایل این جی پائپ لائن معاہدے کے حالیہ مذاکرات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اور روس کے تعلقات انتہائی اہم ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر قاسم فاروق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام) 


 اس طرح کی شراکت داری پاکستان کی توانائی کی سلامتی کے لئے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے ایک اہم رکن ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی بہتر ہونے چاہیئں جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مضبوط بنائے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اقتصادی مواقع خاص طور پر توانائی کی تجارت پاکستان اور ایران کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے سنگ بنیاد کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، دونوں ممالک افغانستان کے استحکام کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں، جو شنگھائی تعاون تنظیم میں تعاون کے لئے ضروری ہے۔ وسیع تر جغرافیائی سیاسی اسٹیج پر، پاکستان کے پاس مسلم کاز کی حمایت کرنے کا موقع ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعے کے بارے میں پاکستان اپنا مؤقف زیادہ بہتر انداز میں پیش کر سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم بنیادی طور پر سلامتی اور اقتصادی تعاون پر توجہ مرکوز کرتی ہے لیکن یہ ایک ایسے فورم کے طور پر بھی کام کر سکتی ہے جہاں پاکستان فلسطین کے خلاف جارحیت کے خاتمے کے لئے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ لہٰذا شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان کے لئے ایک ایسا لمحہ ہے کہ وہ بیرونی دباؤ کی وجہ سے پیدا ہونے والی رد عمل کی خارجہ پالیسی سے نکل کر ایسا فعال مؤقف اختیار کرے جو علاقائی انضمام پر مرکوز ہو۔ اِس سربراہی اجلاس کو کامیاب بنانے کے لئے پاکستان کو دو رخی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں ایک واضح بات یہ ہے کہ پاکستان کو داخلی سیاسی استحکام کی بھی ضرورت ہے۔ سیاسی اداروں، سکیورٹی ایجنسیوں اور اقتصادی وزارتوں کو ایک صفحے پر لانے سے ایک مربوط قومی حکمت عملی تشکیل دی جا سکتی ہے جو ملک کی وسیع تر خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول کو ممکن بنائے اور اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے کوششیں پہلے ہی جاری ہیں جو قابل ستائش ہیں۔پاکستان کو بین الاقوامی روابط، خاص طور پر میڈیا ڈپلومیسی پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جیسا کہ وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے حال ہی میں کہا تھا کہ اطلاعات کے دور میں، مصروفیت بادشاہ ہے۔ حکومت وزارت اطلاعات و نشریات کے وسیع نیٹ ورکس سے فائدہ اٹھا کر عالمی پلیٹ فارمز پر مسلسل پیغام رسانی یقینی بنا سکتی ہے جس سے پاکستان کے حق میں بیانیہ تشکیل دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ علاقائی سلامتی، اقتصادی ترقی اور تجارتی مرکز کے طور پر پاکستان کی کوششوں کو اجاگر کرنے سے نہ صرف سربراہی اجلاس کے اثرات میں اضافہ ہوگا بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مؤقف اُور اِس کے تشخص کو بھی فروغ ملے گا۔ بڑے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ رابطے اور انٹرویوز اور پریس بریفنگز میں اعلیٰ سطح کی شرکت کو یقینی بنانے سے عالمی سطح پر پاکستان کی آواز کو مزید تقویت ملے گی لہٰذا مشترکہ داخلی محاذ اور مضبوط بین الاقوامی میڈیا کی شمولیت سے پاکستان اس سربراہی اجلاس کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک فیصلہ کن لمحہ بنا سکتا ہے اور تنہائی کے سائے سے نکل کر علاقائی اور عالمی جغرافیائی سیاست میں زیادہ مربوط اور بااثر پوزیشن حاصل کر سکتا ہے۔