نگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) ایک طاقتور علاقائی فورم بن چکا ہے، جو اہم جغرافیائی اور معاشی اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک پر مشتمل ہے۔سال دوہزارایک میں قائم ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کا ابتدائی مقصد خاص طور پر وسطی ایشیا میں سلامتی کو لاحق خدشات دور کرنا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس نے اقتصادی تعاون، توانائی کے شعبے میں تعاون اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو شامل کرنے کے لئے اپنا دائرہ کاروسیع کیا جس سے یوریشین جغرافیائی سیاست کے ساتھ جغرافیائی معاشیات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہ تنظیم یوریشین لینڈ ماس کے تقریباً ساٹھ فیصد رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور بشمول چین اور روس جیسی بڑی اقتصادی طاقتوں کے اس میں عالمی آبادی کا چالیس فیصد سے زیادہ حصہ شامل ہے۔ چار جوہری طاقتیں (چین، روس، پاکستان اور بھارت) اور توانائی سے مالا مال روس، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ پاکستان اس مرتبہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان حکومت کی کونسل کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے جس میں سات وزرائے اعظم، ایک نائب صدر اور ایک وزیر خارجہ شامل ہوں گے۔ یہ پاکستان کی مضبوط علاقائی حیثیت اور سفارتی اثر و رسوخ کا مظاہرہ ہے۔ سمٹ کی میزبانی پاکستان کو استحکام اور سلامتی کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع ہے، جس سے یہ مضبوط پیغام جاتا ہے کہ ملک کچھ پیچیدہ بیرونی اور داخلی چیلنجوں کے باوجود ایک اہم علاقائی کھلاڑی ہے۔ اقتصادی طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کی میزبانی پاکستان کے لئے بڑا اعزاز ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اپنے رکن ممالک کے درمیان علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کو فعال طور پر فروغ دے رہی ہے۔ بلاک کے اندر تجارت دوہزاراُنیس میں 336 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2023ء میں 490 ارب ڈالر ہوگئی ہے، جو ممبروں کے مابین بڑھتے ہوئے باہمی انحصار کا اشارہ ہے اور پاکستان کا مقصد اس کے اثرورسوخ سے فائدہ اٹھانا ہے، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے جو پاکستان کو چین اور وسطی ایشیا سے جوڑنے والے اسٹریٹجک تجارتی حکمت عملی ہے۔ اس سمٹ سے پاکستان کو رابطے کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کا موقع ملے گا جس سے اس کے معاشی چیلنجز کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ خاص طور پر‘ پاکستان بنیادی ڈھانچے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کا خواہاں ہوسکتا ہے، تجارتی شراکت داری کو گہرا کرسکتا ہے، اور شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کے ساتھ توانائی (بشمول قابل تجدید توانائی) اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر تعاون پر بات چیت کرسکتا ہے۔ رواں برس شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس وسیع تر جغرافیائی سیاسی تناظر کے پیش نظر خاص طور پر اہم ہے۔ یوکرین کی جنگ، مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنازعے اور ایران کے ارد گرد جاری کشیدگی نے عالمی ترجیحات کو تبدیل کر دیا ہے۔ یہ سربراہی اجلاس ان مسائل پر بات چیت کے لئے ایک متبادل پلیٹ فارم فراہم کرے گا جو بہت سے مغربی اکثریتی فورمز سے مختلف ہوگا۔اسلام آباد سمٹ کا وقت کیوں اہم ہے؟ اس کا جواب بالکل سیدھا ہے: چین اور بھارت کی روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارت اب تک اس کی لائف لائن رہی ہے اور اب وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ مغربی پابندیاں اس کی معیشت پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔ دریں اثناء امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے محصولات اور تجارتی پابندیوں کا سامنا کرنے والا چین اپنی عالمی اقتصادی شراکت داریوں کو متنوع بنانے کی اپنی وسیع تر حکمت عملی کے حصے کے طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے شراکت داروں کے ساتھ علاقائی تعاون کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران، جو مغربی پابندیوں کے تحت شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن ہے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کرے گا کیونکہ اس کی تیل برآمدات پر امریکی دباؤ جاری ہے۔ ایران اسرائیل کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے روس کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری پر بھی بات چیت کر رہا ہے، خاص طور پر وہ ایس یو پینتیس لڑاکا طیارے حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ چین کی مصنوعات پر مغربی محصولات اور روس و ایران پر پابندیوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے لئے اپنے معاشی میکانزم کو تیار کرنے کے مواقع کھول دیئے ہیں اور وہ اپنی معیشت کو آہستہ آہستہ ڈالرائز کرنے کے جانب لے جا رہا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اس پس منظر میں خطے کے مسائل اور چیلنجز پر تبادلہ خیال کے لئے شنگھائی تعاون تنظیم کی صلاحیت و ضرورت اور بھی اہم ہو جاتی ہے۔ پاکستان خود کو ان بڑی معیشتوں کے درمیان تجارت کے لئے ایک اہم ٹرانزٹ مرکز کے طور پر پیش کرسکتا ہے، جس سے جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور اس سے آگے کے درمیان پل کے طور پر اس کے کردار کو مزید فروغ ملے گا۔ مثال کے طور پر روس کے توانائی کے وسائل اور بنیادی ڈھانچے میں چینی سرمایہ کاری بالخصوص بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) اور سی پیک کے ذریعے پاکستان کے توانائی کے شعبے کو مستحکم کرنے اور اس کی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل دوہزارتیئس میں بھارت میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں انسداد دہشت گردی، اقتصادی تعاون اور موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم شعبوں پر بات چیت کی گئی تھی۔ اس کا ایک بڑا نتیجہ علاقائی انسداد دہشت گردی ڈھانچے (آر اے ٹی ایس) میں اضافہ تھا، جو انٹیلی جنس کے تبادلے اور دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے مربوط کوششوں کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے لئے یہ اپنے سکیورٹی خدشات سے مطابقت رکھتا ہے۔اقتصادی محاذ پر بھارت کے سربراہ اجلاس میں تجارتی رکاوٹیں کم کرنے اور رکن ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال وقت کی ضرورت ہے لیکن بھارت کے میک ان انڈیا اقدام اور شنگھائی تعاون تنظیم کے انضمام کے لئے محتاط نکتہ نظر نے تنظیم کی پیش رفت کو محدود کررکھا ہے۔ جغرافیائی سیاسی تناؤ، خاص طور پر بھارت اور چین کے درمیان، اور بھارت اور پاکستان نے علاقائی تعاون کو بڑھانے کی کوششیں بھی اپنی جگہ متاثر ہیں۔ اسلام آباد میں پاکستان کو ان مذاکرات کو آگے بڑھانے کا موقع ملے گا، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں پیش رفت رکی ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت سے پاکستان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عسکریت پسندی کے خلاف انٹیلی جنس شیئرنگ میں گہرے تعاون پر زور دے گا۔ اقتصادی طور پر پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم میں تجارت کو آزاد بنانے اور سرمایہ کاری کے فروغ کی وکالت کرے گا۔ انفراسٹرکچر کے منصوبے، خاص طور پر سی پیک سے منسلک منصوبے ممکنہ طور پر ایجنڈے پر غالب رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اجتماعی دانش مندی عالمی تعاون اور طاقت کے توازن کے مستقبل کو ممکن بنانے کے لئے ایک مشترکہ ویژن میں تبدیل ہو سکتی ہے؟