انسانیت شرمسار ہے۔ دنیا کے چند حصوں میں رہنے والے انتہائی غربت کا شکار ہیں اور اگر انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو بھوک اور فاقہ کشی کے کئی ایک ناقابل یقین واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں تاہم سائنسی اور تکنیکی انقلابات کی وجہ سے صورتحال میں ڈرامائی طور پر بہتری آئی ہے، جس کے نتیجے میں بھوک میں کمی اور خوراک کی قلت بھی کم ہوئی ہے۔ اس کے باوجود غربت یا انتہائی غربت کے خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ غربت کے لحاظ سے پاکستان سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے۔ پاکستان کی قریب چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے جبکہ بدقسمتی سے، پالیسی ساز اس مسئلے سے بڑی حد تک لاتعلق نظر آتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 716 ملین افراد انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں23 ملین کا اضافہ ہے۔ اگرچہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران انتہائی غربت کا شکار افراد کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے کیونکہ پاکستان میں غربت روز بروز بڑھ رہی
ہے۔ بنیادی ضروریات پورا کرنے میں ناکامی سمیت شدید محرومی ملک کے بیشتر حصوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان 52ویں نمبر پر ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں 192 ممالک میں سے 161 ویں نمبر پر پاکستان کی پوزیشن سے اس سنگین صورتحال کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے بہت کم ممالک اس طرح کی وسیع پیمانے پر محرومی اور لاقانونیت کا سامنا کرتے ہیں۔ چین کے اتحادی کی حیثیت سے پاکستان غربت کے خاتمے کیلئے چینی ماڈل پر عمل کر سکتا ہے تاہم معاشی نمو اور ترقی کیلئے امریکی، یورپی، بھارتی، تائیوانی یا سنگاپور کے دیگر معاشی ماڈلز پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔ غربت کے خاتمے کے جامع پروگرام کے فوری آغاز کی ضرورت ہے کیونکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے موجودہ سوشل سیفٹی نیٹ اقدامات غربت سے نمٹنے کیلئے ناکافی ہیں۔ غربت سے نمٹنے میں ایک چیلنج یہ ہے کہ اسے مالی لحاظ سے درست طریقے سے پیمائش کیا جائے۔ غربت کی لکیر کی موجودہ تعریف غربت کے تمام پہلو¶ں کا احاطہ نہیں کرتی ہے۔ غربت غذائی تحفظ سے آگے پھیلی ہوئی ہے اور پورے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس اور سماجی و اقتصادی اشارئیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر غربت کی لکیر دنیا کے غریب ترین ممالک میں غربت کی لکیروں کی اوسط ہے۔ پاکستان میں چھ سو روپے یومیہ کمانے والا مزدور تکنیکی طور پر خط غربت سے اوپر ہے لیکن حقیقت میں وہ انتہائی غربت برداشت کر رہا ہے۔ پاکستان میں غذائی افراط زر کی شرح اتنی بلند ہے کہ دو ڈالر چھ سو روپے یومیہ آمدنی رکھنے والوں کے گزربسر مشکل ہے، کیوں کہ مزدور دیگر سماجی ضروریات کو پورا کرنا تو دور کی بات، اس رقم سے دو وقت کی روٹی بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لئے بین الاقوامی سطح پر خط غربت پر نظر ثانی کی
اشد ضرورت ہے۔ ملک کی خام پیداوار یعنی جی ڈی پی کی نمو سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے جس کیلئے بہتر اور شفاف ٹیکس کا نظام متعارف کرنا ہوگا تاکہ دولت کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائی جا سکے۔ اسی طرح برآمدات بڑھانے کے لئے بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کو فروغ دینا ہوگا۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر کی راہ میں رکاوٹ پیداواری لاگت میں اضافہ ہے۔ بہترین حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک میں تجویز کردہ خصوصی اقتصادی زونز کو فعال کیا جائے۔ اقوام متحدہ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان میں انسداد غربت کے لئے کام کر رہی ہیں لیکن معاشی ترقی اور ترقی کے بغیر غربت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس آنے والے دنوں میں اس طرح کے استحکام کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غریبوں کو غذائی افراط زر کے بوجھ سے بچانے کے لئے غربت میں کمی کے پروگرام شروع کئے جائیں۔ پاکستان کی خوشحالی اور بقا کا دارومدار معاشی ترقی اور غربت میں کمی پر ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسن بیگ۔ ترجمہ ابوالحسن امام)