شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس اختتام پذیر ہونے پر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی میں اپنے مفادات کا تحفظ کامیابی سے کر پائے گا کیونکہ بہت سے جال پاکستان کے منتظر ہیں جہاں اسے فوری ضروریات اور طویل مدتی ضروریات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ ان میں یوکرین، چینی ٹیکنالوجی، تائیوان اور بحیرہئ جنوبی چین پر وسیع پیمانے پر امریکی پابندیاں، امریکہ چین تجارتی جنگ اور لداخ میں بھارت چین جنگ جیسے محاذ شامل ہیں۔اکیسویں صدی کی پہلی سہ ماہی کے اختتام کے ساتھ ہی انتونیو گرامسی نے گرانقدر مشاہدہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”پرانی دنیا مر رہی ہے اور نئی دنیا جنم لے رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا انتظام اب باقی نہیں رہا۔ دیوار برلن کے انہدام کے پینتیس سال بعد جغرافیائی سیاست انتقام کے جذبے کے ساتھ واپس آئی ہے۔“ جس ایک چیز کی کبھی بھی پیشگوئی نہیں کی ہوئی لیکن وہ حقیقت بن چکی ہے۔ جدیدیت کا پیش خیمہ، انسانی حقوق کا چیمپیئن اور اس کے ساتھ سب سے بڑی سخت اور نرم طاقت کا مالک امریکہ کا زوال دکھائی دے رہا ہے۔ امریکہ افغانستان اور عراق کی جنگوں سے تھک چکا ہے، سست ترقی کی وجہ سے معاشی طور پر کمزور ہو چکا ہے، تکنیکی طور پر مشکلات میں ہے اور کمزور سیاسی قیادت کے ہاتھوں سفارتی طور پر کمزور ہو چکا ہے۔گزشتہ دہائی میں تیل اور گیس کی امریکی گھریلو پیداوار میں اضافے نے خلیج میں اس کے انحصار کے ساتھ اس کی دلچسپی کو بھی کم کیا ہے۔ امریکہ تقریبا ًبیالیس ہزار لوگوں کی نسل کشی کو روکنے میں بھی ناکام رہا ہے۔ ملبے کے درمیان ایک حقیقت سامنے آئی ہے کہ امریکہ وہاں ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں اور اسے یوکرین، بحیرہئ جنوبی چین اور نئی ٹیکنالوجی کے میدان میں دھکیلا جا رہا ہے۔ چین کے سابق اعلیٰ عہدے دار کا کہنا ہے کہ امریکہ اب پہلے جیسا توانا نہیں رہا کیونکہ زوال پذیر امریکہ کو ایک ایسے چین کا سامنا ہے جس کے عروج کو، کچھ لوگوں کا کہنا ہے، گلوبلائزیشن اور تکنیکی تبدیلیوں کے ناقابل برداشت رجحانات کی وجہ سے زوال ہو رہا ہے۔گلوبلائزیشن اور تکنیکی تبدیلی چین کے عروج کی واحد علامات
نہیں ہیں۔ عالمی بالادستی کے لئے چین اپنی سافٹ پاور سے کام لے رہا ہے۔ اس نے چار دہائیوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ لبرل جمہوریت کے بغیر بھی معاشی خوشحالی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جو ترقی پذیر دنیا کی زیادہ تر اشرافیہ کو پرکشش لگتا ہے۔ چین کے عروج کو اکیسویں صدی کی ترقی سے مدد مل رہی ہے۔ سوشل میڈیا لبرل جمہوریت کے لئے یہ تباہ کن ہے۔ امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خوف میں اضافہ ہوا ہے۔ روس کی جانب سے فروری 2022ء میں یوکرین پر زمینی حملہ، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد اس طرح کی پہلی کاروائی ہے نے بیسویں صدی میں دو عالمی جنگوں کو بھڑکایا ہے۔پاکستان کو اپنے طور پر مخمصے کا سامنا ہے۔ ستمبر 1953ء کے بعد سے پاکستان کو بھارت سے لاحق خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے نمٹنے کے لئے پاکستان دفاع میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے قرض یا غیرملکی امداد پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت کے خلاف پاکستان کی جنگ تن تنہا لڑی جا رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی ابھرنے والی خارجہ پالیسی کے چار پہلو ہیں: امریکہ کے ساتھ محبت اور نفرت کا اتحاد، امریکہ کے ساتھ مشترکہ اتحاد سے مضبوط ہونے والے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں عالمی تعلقات، چین کے ساتھ دوستی میں سردمہری اور افغانستان و ایران کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات۔ امریکہ نے 2013ء میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کم کر دیئے تھے جو 2021ء میں افغانستان سے انخلأ تک ایک اتحاد کی صورت بحال ہوئے۔ 2004ء میں پاکستان کو اہم غیر نیٹو اتحادی کا درجہ دینے کے باوجود امریکہ پاکستان کو دہائیوں تک دو فوجی اڈوں، انٹیلی جنس تعاون اور زمینی اور فضائی لائنوں کی فراہمی (اے ایل او سی) کے بدلے کولیشن سپورٹ فنڈ دیتا رہا لیکن اس کے علاوہ
کچھ نہیں دیا حالانکہ پاکستان کی قربانیاں زیادہ تھیں۔ دوسری جانب کئی دہائیوں پر محیط پاک چین تعلقات بھی نو سال قبل سی پیک پر دستخط ہونے تک محدود رہے۔ چین دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ، کراچی ٹارگٹ کلنگ اور مہنگائی کے تاریک دور میں پاکستان کی مدد کے لئے آیا۔ سی پیک نے اسٹریٹجک دوستی کو اقتصادی شراکت داری میں مزید گہرا کیا اور پاکستان کے توانائی کے مستقبل کی بنیاد رکھی۔ تاہم سی پیک کے بعد بھی پاکستان کے ادائیگیوں کے توازن کے بحران نے اسے مغرب میں قائم بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے منسلک رکھا گیا اور اس طرح قریب دشمن امریکہ کے اثر و رسوخ کا شکار ہے۔ اس طرح پاکستان کو اپنے طور پر ایک مخمصے کا سامنا رہا۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تاریخی اتحاد اور دوسری طرف فوری مالی مفادات اور طویل مدتی مفادات کے درمیان پھنسا ہوا ہے کیونکہ چین اور مغرب کی تقسیم کے ساتھ ساتھ دنیا ٹوٹ رہی ہے۔پاکستان کو اس صورتحال میں ہنرمند ریاست سازی کی ضرورت ہے۔ ہمارے طویل مدتی مفادات ابھرتے ہوئے چین کے ساتھ ہیں نہ کہ زوال پذیر امریکہ کے ساتھ۔ اس کے باوجود چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنے ساتھ یا اپنے خلاف کسی سازش کا حصہ نہ بنیں۔ پاکستان کے لئے بھارت کی چالیں سمجھنا ضروری ہیں۔ اِس صورتحال میں حکومت کو چاہئے کہ سب سے پہلے میگافون ڈپلومیسی کے لالچ سے بچے۔ جب تک بالکل ضروری نہ ہو کسی بھی مسئلے پر بات نہ کی جائے۔ پاکستان کو یورپ، افریقہ، جنوبی امریکہ اور مشرقی ایشیا میں مستقبل کے دوستوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے چاہیئں۔ دفتر خارجہ کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق از سر نو تشکیل کیا جانا چاہئے اور عصر حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ وقت ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی امنگوں کے مطابق اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرے اور جمہوریت کے تحفظ اور غریب عوام کی خوشحالی سے متعلق ترجیحات و اہداف کا تعین کرے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر انجنیئر خرم دستگیر خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)