عوامی جمہوریہ چین اپنے قیام کی 75ویں سالگرہ منا رہا ہے اور کامیابی کے ثبوت کے ساتھ‘ یہ ترقی کا ایک غیرمعمولی سفر ہے۔1949ء کی خانہ جنگی نے چین کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا تھا لیکن اِس تباہی سے ابھرا جس کی بہت ہی کم لوگوں کو توقع تھی کہ یہ ملک اس قدر کم وقت میں‘ اِس قدر عالمی شہرت حاصل کرے گا۔ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران، چین کے رہنماؤں نے قابل ذکر تبدیلی کے تصور کو عملی جامہ پہناتے ہوئے 80کروڑ سے زائد افراد کو غربت سے باہر نکالا اور ملک کو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بنا دیا لیکن یہ کامیابیاں صرف اقتصادی سے کہیں زیادہ ہیں۔ چین کے عروج نے نہ صرف اس کے داخلی منظر نامے کو نئی شکل دی بلکہ عالمی سطح پر اس کے کردار کو بھی نئے سرے سے بیان کیا جس سے وہ عالمی ترقی کا شراکت دار اور بین الاقوامی تعاون کے مستقبل کی تشکیل میں ایک اہم قوت بن گیا ہے۔چین کی قابل ذکر اقتصادی ترقی حادثاتی نہیں یہ ایک جرأت مندانہ اقدام ہے جو 1970ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہوئی تھی۔ اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسیوں کو اپنانے کے ساتھ، چین نے تجارتی لبرلائزیشن، غیر ملکی سرمایہ کاری اور تیزی سے صنعت کاری بے مثال رہی۔ ملک نے اپنی وسیع افرادی قوت اور قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشی پاور ہاؤس بنایا جو اب عالمی جی ڈی پی کا اٹھارہ فیصد ہے۔سال دوہزارتیئس میں 5.2 فیصد کی شرح نمو کے ساتھ چین نے عالمی معیشت میں استحکام لانے والی قوت کے طور پر بھی اپنے آپ کو منوایا لیکن چین کا عروج اس کی سرحدوں سے باہر ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے تجارتی ملک کی حیثیت سے، چین 120 سے زیادہ ممالک کے لئے سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔سال 2022ء تک چین نے براہئ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کے لئے دوسری سب سے بڑی منزل کے طور پر اپنی پوزیشن مستحکم کی، جو عالمی سپلائی چین اور مینوفیکچرنگ میں اس کے مرکزی کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ عالمی معیشت میں چین کا انضمام نہ صرف کامیابی ہے بلکہ عالمی تجارت کے لئے اہم طاقت ہے۔چین کے عروج نے دیرینہ تصورات کے بت بھی پاش پاش کئے ہیں اور خود کو اُبھرتی ہوئی قوم ثابت کیا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں تک جنوبی ایشیا، افریقہ اور دیگر ممالک نے اس خیال کو قبول کیا کہ ترقی یافتہ معیشتوں کے ساتھ آگے بڑھنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ بہتر مواقعوں کی تلاش میں مغرب کی طرف ہجرت کی جائے لیکن چین نے اس بیانیے اور مفروضے کو غلط ثابت کیا اور صرف چند دہائیوں میں، اس نے ظاہر کیا کہ تیز رفتار اقتصادی ترقی قابل حصول ہے۔ وسائل نکالنے کے روایتی ماڈل پر انحصار کئے بغیر جو طویل عرصے سے عالمی معیشت پر حاوی ہے۔ چین کی کامیابی اس خیال پر مبنی نہیں کہ ایک قوم کا فائدہ دوسرے کے نقصان پر ہونا چاہئے بلکہ یہ داخلی اصلاحات اور موجود وسائل کے مؤثر استعمال کی وجہ سے ہے۔ ٹیلی مواصلات اور ایل ای ڈی ٹیکنالوجی سے لے کر شمسی توانائی اور برقی گاڑیوں تک، چین کا نکتہئ نظر بڑے پیمانے پر سستی، اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار کرنا رہا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ چین نے اس ٹیکنالوجی کو دنیا کے لئے قابل رسائی بنا دیا ہے۔ چین کی ترقی میں سبق پوشیدہ ہے کہ کوئی قوم اپنی مقامی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہے، مساوی ترقی کو فروغ دے سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں، عالمی ترقی کی حیثیت کو چیلنج کر سکتی ہے۔ اس نکتہئ نظر نے نہ صرف چین کو فائدہ پہنچایا بلکہ دیگر ممالک کے لئے ترقی کا ایک خاکہ (تصور) بھی پیش کیا ہے جو اپنے معاشی مستقبل کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سوچ میں تبدیلی ہے جو دنیا کو ترقی اور خوشحالی کو نئی شکل دے سکتی ہے۔چین عوامی جمہوریہ کے قیام کی 75ویں سالگرہ ایک ایسے وقت میں منا رہا ہے کہ دنیا اپنے آپ کو معاشی عروج کی حالت میں دیکھ رہی ہے۔ توقعات اور افسانوں کی حقیقت عیاں ہو چکی ہے۔ پاکستان میں معروف بروکریج کے ٹریڈ سکیورٹیز کی جانب سے ”چین کا 75 سالہ سفر: خرافات سے چھٹکارا اور متاثر کن اُمید“ کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں اس قابل ذکر سفر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ امریکہ کے ساتھ تجارتی تنازعات کے تناظر میں یہ رپورٹ سنجیدہ یاد دہانی ہے: طویل مدت میں معاشی معقولیت ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ ممالک کو ایسے فیصلے کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو ان کے ذاتی مفادات کے خلاف ہوں۔ چین کی ترقی کی جڑیں اس یقین پر مبنی ہیں کہ باہمی خوشحالی کلیدی ہے۔ اگر دیگر قومیں ترقی کرتی ہیں تو چین بھی ترقی کرے گا۔ اس ہم آہنگی نے عالمی اقتصادی تعلقات کو نئی شکل دی ہے، خاص طور پر برکس جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ چین کا کردار نمایاں ہے۔چین صرف عالمی مینوفیکچرنگ مرکز نہیں بلکہ یہ اِس سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور عالمی سپلائی چین کا حصہ بن کر صرف اپنی نئی بلکہ کئی اقوام کی ترقی کا شراکت دار بن گیا ہے۔ چین نے ایک ایسے مستقبل کو اپنایا ہے جہاں اس کی تکنیکی قیادت مینوفیکچرنگ کی بالادستی کے ساتھ کھڑی ہے۔ چین کی ترقی میں پاکستان جیسے ممالک کے لئے سبق یہ ہے کہ جو بھی ملک اپنی صنعتی طاقت کو سائنسی ایجادات کی طاقت کے ساتھ جاری رکھے گا وہ اکیسویں صدی میں سپر پاور ہونے کے نئے معنی تخلیق و بیان کرے گا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔