شنگھائی تعاون تنظیم فیصلہ سازی کا دوسرا سب سے بڑا عالمی ادارہ بھی ہے۔ تنظیم 9 رکن ممالک، 14 ڈائیلاگ پارٹنرز اور 3 مبصر ممالک پر مشتمل ہے جو تجارت، ثقافت، رابطے اور علاقائی امن و استحکام کے فروغ کے لئے بنائی گئی ہے اور پاکستان 2017ء سے اِس کا رکن ہے۔ تنظیم کے حالیہ اجلاس کے لئے پاکستان کا انتخاب بنیادی طور پر تین وجوہات کی بنا پر لائق توجہ ہے۔ سب سے پہلے، شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کو ظاہر کیا گیا۔ اس کا ثبوت اعلیٰ قیادت کی حاضری سے ملتا ہے۔ دو روزہ اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سات وزرائے اعظم نے شرکت کی جن میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور بیلاروس شامل ہیں۔ تین دیگر اعلیٰ سطحی شخصیات میں ایران کے پہلے نائب صدر، بھارتی وزیر خارجہ اور کابینہ کے ڈپٹی چیئرمین اور ترکمانستان کے وزیر خارجہ شامل تھے۔ مجموعی طور پر یہ گیارہ اعلیٰ سطحی شرکا دنیا کی آبادی کے 40 فیصد سے زیادہ کی نمائندگی کرتے تھے۔ عالمی سطح پر اس اجلاس میں جوہری ہتھیار رکھنے والے 9 میں سے 4 ممالک (پاکستان، چین، روس اور بھارت) اور دو بڑی طاقتوں (روس اور چین) نے شریک ہوئے جبکہ علاقائی سطح پر پاکستان، بھارت اور ایران سمیت اہم ممالک کی شرکت نے اجلاس کو غیرمعمولی طور پر اہم بنا دیا۔ (بھارت کو چھوڑ کر) پاکستان کے دیگر سبھی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے اور میزبانی کرنے کی صلاحیت علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کے لئے بڑی کامیابی ہے۔ اس میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی سفارتی طاقت ظاہر ہوتی ہے۔ سربراہ اجلاس کی میزبانی سے قبل اسلام آباد نے ایران، روس، چین، ترکمانستان، تاجکستان، قازقستان اور ازبکستان کے ساتھ اعلیٰ سطحی دو طرفہ ملاقاتیں کیں۔ ایس سی او اجلاس کے موقع پر پاکستان نے تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے والے تمام ارکان (بھارت کے علاؤہ) دو طرفہ ملاقاتوں میں مصروف رہے جو پاکستان کے بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سمٹ نے بین العلاقائی جغرافیائی سیاست میں ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت سے پاکستان کا پرعزم کردار ظاہر ہوا اور پاکستان کے تنظیم کے رکن ممالک کے ساتھ دوطرفہ روابط میں اضافہ ہوا۔ دوسرا یہ کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کی میزبانی سے پاکستان کی بڑھتی ہوئی جغرافیائی و اقتصادی اہمیت کی نشاندہی ہوئی۔ پاکستان کی انوکھی
پیشکشوں نے اسے جامع کاروباری شراکت دار کے طور پر پیش کیا، جس پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت اس کی باہمی نوعیت کو اجاگر کرنے کے لئے بار بار زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کی راہداری کی جامع نوعیت شنگھائی تعاون تنظیم کے تحفظ پسندانہ تجارتی اقدامات کا مقابلہ کرنے اور عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) اور شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) چارٹر کے اصولوں پر مبنی غیر امتیازی تجارتی نظام کو مضبوط بنانے کے مقصد سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس سے قبل ستمبر دوہزارچوبیس میں اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزارتی اجلاس میں شمولیت کے اسی مقصد کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے باہمی تجارتی و معاشی مفادات کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی جبکہ عالمی تجارت میں تنظیم کے رکن ممالک کا حصہ بڑھانے کے لئے سپلائی چین سمیت لائحہ عمل تشکیل دیا گیا۔ اس سے رکن ممالک کے درمیان اقتصادی ترقی کے لئے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت پر اتفاق رائے ظاہر ہوا۔ اس سلسلے میں پاکستان رکن ممالک کے درمیان سڑک، ریل اور فضائی رابطوں کے ذریعے فزیکل کنکٹیویٹی کو فروغ دینے کے لئے اپنی منفرد پوزیشن سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہین شفیق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)