غزہ میں لڑنے والے اسرائیلی فوجی ذہنی تناؤ شکار ہیں اور ان میں سے بعض ذہنی تناؤ کے سبب اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر رہے ہیں۔
امریکی میڈیا نے ایک ایسے ہی اسرائیلی فوجی کی کہانی بتائی ہے جس نے ذہنی تناؤ کا شکار ہوکر خودکشی کرلی۔
رپورٹ کے مطابق چالیس سالہ ایلیران مزراہی جو چار بچوں کا والد تھا، اسے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر ہونے والے حملے کے بعد غزہ میں بھیجا گیا۔
امریکی اخبار نے لکھا کہ مزراہی اسرائیلی فوج کا ریزرو فوجی اہلکار تھا جو غزہ سے ایک مختلف شخص بن کر واپس آیا، اس کے خاندان کے مطابق مزراہی نے غزہ میں جنگ کے دوران جو ہولناک مناظر دیکھے ان سے اسے شدید ذہنی دباؤ اور بعد میں پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
مزراہی کے خاندان نے سی این این کو بتایا کہ مزراہی کو پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) ہو گیا تھا، اور جب اس کی دوبارہ جنگ کے لیے تعیناتی کی باری آئی، تو اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔
سی این این نے رپورٹ میں لکھا کہ مزراہی کی والدہ جینی مزراہی نےبتایا کہ "وہ غزہ سے تو نکل آیا، لیکن غزہ اس سے باہر نہ نکل سکا اور اسی وجہ سے وہ مرگیا،کیونکہ وہ جنگ کے بعدکے ذہنی صدمےکا شکار ہو چکا تھا۔"
اسرائیلی فوج کے مطابق وہ ہزاروں فوجیوں کو نفسیاتی علاج فراہم کر رہے ہیں، جو جنگ کے دوران شدید ذہنی تناؤ یا دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگئے ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ کتنے فوجیوں نے خودکشی کی ہے کیونکہ اسرائیلی فوج نے کوئی سرکاری اعداد و شمار فراہم نہیں کیے ہیں۔
اس جنگ کو ایک سال سے زیادہ ہو چکا ہے اور غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس جنگ میں 42,000 سے زائد فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شہید ہونے والوں میں بہت بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
یہ جنگ اسرائیل کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ بن چکی ہے جو کہ اب لبنان تک پھیل گئی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے فوجیوں کو دوبارہ محاذ پر جانےکا خوف لاحق ہے۔
اسرائیلی فوج کے ایک طبی عملے کے رکن نے سی این این کو بتایا کہ "ہم میں سے بہت سے لوگوں کو دوبارہ لبنان میں جنگ کے لیے بھیجے جانےکا خوف ہے، ہم میں سے کئی کو حکومت پر اعتماد نہیں رہا۔"
جنگ کے خوفناک مناظر
سی این این کے مطابق مزراہی نے 8 اکتوبر کو غزہ میں ایک D-9 بلڈوزر چلانا شروع کیا تھا، جو کہ ایک انتہائی مضبوط بکتر بند گاڑی ہے جس پر گولیاں اور دھماکے اثر نہیں کرتے، جنگ میں شامل ہونے سے قبل وہ ایک عام شہری کی زندگی گزار رہا تھا اور اسرائیل کی ایک تعمیراتی کمپنی میں بطور منیجر کام کرتا تھا۔
ان کی والدہ جینی کے مطابق وہ 186 دن تک غزہ میں رہا، اس دوران اس کے دماغ پر پڑنے والے ان مناظر کا اثر اتنا گہرا تھا کہ وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگیا۔
اس کی بہن نے سی این این کو بتایا: "وہ ہمیشہ کہتے تھےکہ کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا کہ میں نے کیا دیکھا۔"
فوجیوں کے ذہنی مسائل
مزراہی کے دوست اور بلڈوزر کے ساتھی ڈرائیور زاکن نے ان کے تجربات پر روشنی ڈالی۔
زاکن نے سی این این کو بتایا کہ ہم نے بہت مشکل چیزیں دیکھیں، ایسی چیزیں جو قبول کرنا مشکل ہیں۔
زاکن نے اسرائیلی پارلیمنٹ کنسیٹ کے سامنے ایک گواہی میں کہا کہ کئی مواقع پر فوجیوں کو زندہ یا مردہ سیکڑوں فلسطینیوں کو بلڈوزر کے نیچے سے گزارنا پڑا۔
زاکن کا کہنا ہے کہ وہ اب گوشت نہیں کھاسکتے، کیونکہ انہیں وہ مناظر یاد آتے ہیں جو انہوں نے غزہ میں دیکھے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ گوشت اور خون کو باہر دیکھتے ہیں تو پھر آپ کے لیے اسے کھانا مشکل ہو جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق غزہ میں عام شہریوں کے لیے بھی ذہنی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کے مطابق 17 سال سے جاری محاصرے اور کئی جنگوں کی وجہ سے پہلے سے ہی ذہنی دباؤ کا شکار لوگ اب مزید شدید مسائل سے دوچار ہیں۔
مزراہی کے خاندان نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے ان کے بیٹے کو فوجی اعزاز کے ساتھ دفنانے سے انکار کر دیا تھا، کیونکہ وہ "فعال ڈیوٹی پر نہیں تھے"تاہم بعد میں فوج نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
اسرائیلی وزارت صحت کے مطابق ہر سال 500 سے زائد لوگ اسرائیل میں خودکشی کرتے ہیں اور 6,000 سے زیادہ خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔