ناقابل فراموش شہادت

حماس کے رہنما اور سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت سے مزاحمتی تحریک کی رگوں میں شہادت کا پاک و پاکیزہ خون دوڑ گیا ہے۔ شہید سنوار کی زندگی اور ان کی شہادت بھی مزاحمت کی عکاس بن کر امر ہو گئی ہے۔ آپ 1962ء میں خان یونس نامی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے جہاں اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد (نکبہ) کے دوران ان کا خاندان عسقلان میں پناہ حاصل کئے ہوئے تھا۔ آپ نے 1987ء میں حماس کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی اس میں شمولیت اختیار کرلی اور داخلی سیکیورٹی ونگ کے اہم رکن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ یحییٰ سنوار جاسوسوں اور مخالفین کے سہولت کاروں کی شناخت کرنے کے ماہر تھے اور اس کیلئے وہ اکثر اوقات سخت طریقہئ کار اختیار کرتے تھے۔ ان کی جانب سے بنائے گئے نظام کی پائیداری اس سے بھی ثابت شدہ ہے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود اسرائیل کی انٹیلی جنس اب تک غزہ کی پٹی میں یحییٰ سنوار سمیت حماس کے دیگر اہم رہنماؤں کی نقل وحرکت کو بے نقاب نہیں کر سکی حتیٰ کہ جب وہ یحییٰ سنوار کو شہید کرنے میں کامیاب ہوگئے تب بھی اسرائیل نے بذات خود اعتراف کیا کہ اسرائیلی افواج کا ان سے ٹکرا جانا اتفاقیہ تھا۔ 1982ء اور 1988ء میں گرفتار ہونے والے یحییٰ سنوار نے رہائی سے قبل اسرائیلی جیل میں 23 سال گزارے۔ ممکنہ طور پر یہی وہ وجہ تھی جس کی بنا پر انہیں سات اکتوبر کے حملے کی ترغیب ملی جس کے تحت حماس نے ڈھائی سو اسرائیلی سپاہیوں کو یرغمالی بنایا اور انہیں اپنے ساتھ غزہ لے گئے۔ اسرائیلی جیل نے ان کیلئے ایک تربیتی مرکز کے طور پر کام کیا، سالوں بعد یحییٰ سنوار نے اپنے سپورٹرز کو بتایا کہ ’وہ چاہتے تھے یہ جیل ہماری قبر بن جائے جہاں ہمارے حوصلوں اور عزائم کو کچلا جا سکے لیکن ہم نے امید نہیں چھوڑی اور جیل کو اپنے لئے عبادت گاہ اور مطالعے کی اکیڈمیز میں تبدیل کردیا۔‘ یہ کسی مزاحمتی رہنما کی محض کھوکھلی باتیں نہیں بلکہ یحییٰ سنوار نے جیل میں گزارے جانے والے عرصے کے دوران اسرائیل کی سرکاری عبرانی زبان پر عبور حاصل کیا اور ساتھ ہی وہ مشاہدہ کرتے رہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز کیسے کام کرتی ہیں بالخصوص بدنام زمانہ داخلی سیکیورٹی ونگ شن بیٹ کس طرح کام کرتا ہے اور پھر انہوں نے جیل خانہ سے حاصل کردہ معلومات کا بہترین انداز میں استعمال کیا۔ یحییٰ سنوار جو سالوں سے اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے‘ غزہ میں ہی مقیم رہے، ایک مجاہد کے طور پر اپنے لوگوں کے ساتھ رہے اور ان کی آخری تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے اپنے گھر کے ملبے کے درمیان کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ زمینی کاروائی کے دوران اسرائیلی افواج سے سامنا ہونے پر یحییٰ سنوار اور ان کے تین محافظوں نے ایک عمارت میں پناہ لی۔ اسرائیل کے مطابق یحییٰ سنوار نے قریب آنے والے سپاہیوں پر دستی بموں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک اسرائیلی فوجی شدید زخمی ہوا۔ جس عمارت میں انہوں نے پناہ لی تھی اسے ٹینک کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جس میں یحییٰ سنوار شدید زخمی ہوئے اور ان کا دایاں بازو جدا ہوگیا۔ اس کے بعد اسرائیل نے ڈرون بھیجا۔ ان کے محافظ پہلے ہی شہید ہوچکے تھے اور جیسا کہ ڈرون فوٹیج نے دکھایا کہ یحییٰ سنوار زخمی حالت میں سر پر کوفیہ باندھے صوفے پر براجمان تھے۔ ان کا بایاں بازو جو اس وقت حرکت کرنے کے قابل تھا، انہوں نے اس بازو سے مزاحمت کی آخری کوشش کے طور پر قریب آنے والے اسرائیلی کواڈ کاپٹر پر چھڑی پھینکی جوکہ ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانے والے ہولوکاسٹ کے خلاف مزاحمت کی ایک انسانی کوشش تھی۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی انہیں شہید کرنے کے لئے اسنائپر شوٹر کی ضرورت پیش آئی۔ ان کی شہادت نے اسرائیل کے بہت سے جھوٹے دعوؤں کا پردہ چاک کیا۔ ایک اور مجاہد کی شہادت کے نتیجے میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسرائیل اپنے ناپاک عزائم و مقاصد میں کامیاب ہوتا ہے یا ذلت و شکست اس کا مقدر لکھ دی گئی ہے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر ضرار کھوڑو۔ ترجمہ ابوالحسن امام)