موسم کبھی بھی ہمارے بس میں نہیں تھے لیکن حالیہ موسمیاتی تبدیلی نے موسموں کے بارے میں پیشگوئی کو بھی مشکل بنا دیا ہے اور گزشتہ ماہ ایسے حادثات رونما ہوئے جو شدید موسمی واقعات کے باعث تھے‘ ان میں شہری سیلاب اور تیز ہواؤں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس نے بہت سی چیزوں کو تباہ کر کے رکھ دیاہے۔ یہ سبھی واقعات ہماری آب و ہوا کی بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کو اجاگر کرتے ہوئے اِس ضرورت پر زور دے رہی ہے کہ دنیا کو فوری طور پر زیادہ لچکدار ڈھانچے اور آفات کی تیاری کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں آنے والے سمندری طوفانوں سے لے کر یورپ میں کبھی نہ ہونے والی بارشوں تک، قدرتی آفات اپنی تعدد اور طاقت کے لحاظ سے زیادہ وزنی ہوتی جا رہی ہیں۔ سب سے یادگار واقعات میں سے ایک میں، فرانس میں 48 گھنٹوں میں 700 ملی میٹر تک بارش دیکھی گئی جب کہ پیرس میں عام طور پر پورے سال میں 641 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ اِس بارش سے آرڈیچے اور لوزر نامی پورے کے پورے گاؤں بہہ گئے اور انفراسٹرکچر شدید طور پر تباہ ہوا۔فرانسیسی حکام نے صورتحال سے نمٹنے کے طریقہ کار کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نظام کا پہلا تجربہ کیا جس میں شہریوں کو محفوظ رہنے اور سفر بند رکھنے پر زور دیتے ہوئے ٹیکسٹ پیغامات بھیجے گئے۔ بارشوں میں کمی کے بعد ریڈ الرٹ ہٹا لیا گیا اور فائر فائٹرز نے بتایا کہ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد کم از کم اکتالیس ہے۔ بحر اوقیانوس کے اس پار، امریکہ میں سمندری طوفان آیا جسے ملٹن کیٹیگری فور کا نام دیا گیا۔ اِس طوفان میں خلیجی ساحلی علاقے میں 140میل فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار سے ہوائیں چلیں اور 165 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلنا شروع ہوئیں۔ ملٹن کی شدت اور اس سے ہونے والے نقصانات نے اسے گزشتہ دس برس کے بدترین طوفانوں میں سے ایک بنا دیا۔اندازوں کے مطابق ملٹن کا معاشی نقصان اربوں ڈالر تک پہنچ گیا ہے‘ جس میں زرعی زمینیں تباہ ہو چکی ہیں۔ اگرچہ امریکہ اس طرح کی آفات سے نمٹنے کے لئے وسائل رکھتا
ہے لیکن ہنگامی خدمات پر دباؤ اور نقصان کا پیمانہ خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس سے ایک سنجیدہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ جب اس طرح کی تباہ کاریاں غریب ترقی پذیر ممالک پر اثر انداز ہوتی ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں بنیادی ڈھانچہ ناکافی ہے، شہروں میں بہت زیادہ آبادی ہے، اور حکومتیں پہلے ہی متعدد بحرانوں (جیسے معاشی عدم استحکام، سیاسی بدامنی، صحت عامہ کے چیلنجز) سے نبرد آزما ہے تو موسمیاتی تبدیلیوں سے تباہی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ سال دوہزاربائیس میں پاکستان میں آنے والے سیلاب نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا اور تب زمین کا ایک بڑا حصہ زیر آب آ گیا تھا، جس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اس طرح کی آفات کے لئے تیار نہیں تھا۔ المیہ یہ ہے کہ غریب ممالک میں اکثر اس طرح کے انتہائی واقعات کا مؤثر جواب دینے کی صلاحیت، وسائل اور ٹیکنالوجی کی کمی ہوتی ہے۔ ہنگامی خدمات کے لئے فنڈز کی کمی ہوتی ہے، بنیادی ڈھانچہ زیادہ تر مضبوط نہیں ہوتا اور ان ممالک کے گنجان آباد شہری مراکز انخلأ اور امدادی کاموں کو بہت مشکل بناتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مسعود لوہار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
یہ انہی علاقوں میں ہے جہاں آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ شدت سے محسوس کئے جاتے ہیں۔ پھر بھی ان کے پاس اپنی آبادیوں کو اس کے اثرات سے ڈھالنے اور بچانے کی کم سے کم صلاحیت ہوتی ہے۔ ایسی آفات کے بعد تعمیر نو میں کئی سال لگ سکتے ہیں، ایک ایسا عمل جس کے دوران لاکھوں افراد غربت اور نقل مکانی کے چکر میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر تصویر بھی یکساں خوفناک ہے جیسا کہ لیبیا میں رواں سال کے اوائل میں دو ڈیموں کے منہدم ہونے کے بعد آنے والے تباہ کن سیلاب نے ہزاروں افراد کی جان لے لی اور پورے شہر تباہ ہو گئے۔ جنوبی ایشیا میں مون سون کے موسم نے پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو بے گھر کرنے کے ساتھ غذائی تحفظ کی اہم فصلوں کو بھی تباہ کیا۔ مختلف براعظموں میں ہونے والے یہ معاندانہ موسمی واقعات اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی مستقبل میں کوئی دور کا خطرہ نہیں بلکہ یہ فوری اور موجود خطرہ ہے۔ شدید موسمی رجحانات میں اضافے کی وجہ سے نشیبی علاقوں کو شدید سیلاب اور دیگر متعلقہ آفات کا خطرہ ہے۔ بنیادی طور پر پسماندہ ممالک میں، جن کے پاس پہلے ہی تمام امدادی وسائل کم ہوتے ہیں بڑے پیمانے پر مہلک موسموں کی وجہ سے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں جو زبردست نقصان، معاشی تنزلی اور طویل عرصے تک ماحول کو خراب یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی صرف غریب ممالک ہی کے لئے نہیں بلکہ سرمایہ دار ممالک کے لئے بھی خطرہ ہے۔ فرانس میں سیلاب، امریکہ میں سمندری طوفان ملٹن کی وجہ سے چھوڑے گئے کھنڈرات اور ترقی پذیر ممالک میں تباہ کاریاں یاد دہانیاں ہیں کہ حکومتوں، بین الاقوامی ایجنسیوں اور انفرادی سطح پر عوام کو عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کی صورت نئی اور مہلک حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے تیاری کرنی چاہئے۔ دنیا میں، موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں قدرتی آفات زیادہ سے زیادہ اور بار بار رونما ہو رہی ہیں اور یہ پہلے سے زیادہ سنگین بھی ہیں جن کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری سے کوئی بھی ملک خود کو الگ نہیں کر سکتا۔ موسمیاتی تبدیلیاں پورے کرہئ ارض کا مسئلہ ہے اور سبھی ممالک کو مل کر اِس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔