معدنیات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لئے اقتصادی ترقی کا باعث بن سکتی ہیں اور اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہ قومی ترقی کے لئے یکساں طور پر مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ برسوں سے پاکستان کے پاس معدنی وسائل کے بڑے ذخائر ہیں۔ یہ ذخائر دنیا کے سب سے بڑے تانبے اور کوئلے کے ذخائر میں سے ایک ہیں لیکن پھر بھی خاطرخواہ آمدنی و کامیابی حاصل نہیں کی جا سکی ہے جبکہ اِس صورتحال میں تبدیلی ممکن ہے کیونکہ ایس آئی ایف سی کی ترجیحات میں معدنیات کی ترقی شامل ہے۔ پاکستان کے معدنی ذخائر کے تخمینہ جات مختلف ہیں۔ تانبے کے ذخائر 1.4 ارب سے 3.5 ارب ٹن کے درمیان بتائے جاتے ہیں۔ خام لوہے کی مقدار 1.5 ارب سے 3.0 ارب ٹن اور کوئلہ 165 ارب ٹن ہے۔ اس کے علاؤہ پاکستان میں کرومائیٹ، باکسائٹ، مینگنیز اور نمک کے ساتھ ساتھ سونے اور چاندی کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ اِس شعبے میں تقریبا تین لاکھ ملازمین کام کر رہے ہیں۔ امریکہ کی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن نے پاکستان کو شیل آئل اور گیس کے وسائل میں سرفہرست دس ممالک میں سے ایک قرار دیا ہے۔ قومی خوشحالی کے لئے معدنیات کی ترقی کا خیال صدیوں پرانا ہے۔ اُنیسویں صدی میں، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے اِس شعبے میں نمایاں کامیابی کے لئے معدنیات پر انحصار کیا۔ معدنیات اب بھی مؤخر الذکر دو معیشتوں میں ایک ہیں۔ حال ہی میں، کان کنی نے چلی، پیرو، بوٹسوانا اور انڈونیشیا میں تیزی سے جی ڈی پی نمو حاصل کی جس سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور اِس کے نتیجے میں معیشت کی استعداد کار میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ پاکستان میں معدنیات کے شعبے میں انسانی وسائل کے معیار اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری آئی ہے، جس سے مجموعی فلاح و بہبود میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر چلی میں معدنیات نے ڈاؤن اسٹریم اور سپلائی سائیڈ صنعتوں کو متحرک کیا ہے۔ اس طرح کی ترقی صرف مارکیٹ کی قوتوں کے ذریعے نہیں ہوئی۔ حکومتی پالیسیوں نے ان روابط کو فروغ دیا۔ناقدین 1950ء کی دہائی تک ابھرے اور کان کنی کی دولت پر انحصار کرنے میں خامیوں کو تلاش کیا اور 1990ء کی دہائی میں محققین نے ’وسائل کی خرابیاں‘ جیسی اصطلاح ایجاد کی۔ ان کا استدلال تھا کہ معدنی وسائل عدم مساوات کا سبب بنتے ہیں۔ گزشتہ بیس برس میں معدنیات کے شعبے میں وسیع ترقی دیکھی گئی ہے حالانکہ یہ سب ایک ایسے دور میں ہوا ہے جبکہ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ سال دوہزارچودہ میں عالمی بینک کے ماہرین میک موہن اور موریرا نے کان کنی پر انحصار کرنے والی کم یا درمیانی آمدنی والی پانچ معیشتوں چلی، گھانا، انڈونیشیا، پیرو اور جنوبی افریقہ کی معاشی پیش رفت کا مطالعہ کیا۔ اُن کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ معیشتیں بہت سے اشارئیوں میں ایسی معیشتوں سے آگے ہیں جن کے ہاں کان کنی پر انحصار کیا جاتا ہے اور ایسا اِس لئے عملاً ممکن ہوا ہے کیونکہ مفید حکومتی پالیسیاں مرتب کی گئیں اور حکومتوں نے ٹیکس آمدنی کو عوامی اشیاء میں سرمایہ کاری کے لئے استعمال کیا۔ ان حکومتی پالیسیوں نے کان کنی کے شعبے کو دیگر صنعتوں کے ساتھ منسلک کر کے ترقی دی۔ چلی اور انڈونیشیا نے تانبے پر مبنی الیکٹرانکس اور بیٹری کی پیداوار جیسی ویلیو ایڈڈ صنعتوں کو فروغ دیا۔ انہوں نے خام معدنیات کی برآمد پر کوٹہ بھی لگایا۔ قومی خام پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کے علاؤہ، کان کنی سے جڑے انسانی سرمائے کے معیار کا بھی مطالعہ کیا گیا اور معلوم ہوا کہ جن علاقوں میں کان کنی ہوتی ہے وہاں کے رہن سہن اور بنیادی ڈھانچے میں نمایاں بہتری (تبدیلی) آئی ہے جبکہ کاروباری سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کان کنی کی فرموں کو مشین کی مرمت سے لے کر تعمیرات تک اور دیگر صنعتی جیسی بہت سی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرموں اور کارکنوں نے ان مہارتوں کو سیکھا اور انہیں دوسری صنعتوں میں بھی منتقل کیا۔ماضی میں، چلی نے کان کنی کی صنعت کے لئے سب سے زیادہ سازوسامان اور خدمات درآمد کیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی برس میں‘ کان کنی کا شعبہ سات لاکھ بیس ہزار سے زائد ملازمتوں کا ذریعہ بن گیا اور چلی نے کان کنی سے حاصل ہونے والی اشیا برآمد کرنا بھی شروع کر دیں۔ چلی کا ساحلی شہر انٹوفاگسٹا کان کنی کی وجہ سے ترقی کرتا چلا گیا۔ حکومت کی مدد سے دس بڑی کان کنی فرموں اور دو یونیورسٹیوں نے خطے میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی پیداواری اور تکنیکی ترقی کے لئے معاون خدمات فراہم کیں اور ایک مشترکہ ترقیاتی منصوبہ تشکیل دیا۔ پاکستان میں کان کنی کے فروغ کے لئے اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ اِس شعبے کی جانب نجی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔ اِسی طرح رائلٹی سے متعلق قوانین میں تبدیلی کر کے غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو مدعو کیا جا سکتا ہے جس سے ریاست کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ ٹیکس یا دیگر پالیسیوں کے ذریعے حکومت کو اس شعبے کو زیادہ پیداواری اور ماحول دوست بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ معدنیات پر کام کرنے والی فرموں کو شمسی توانائی یا ری سائیکل شدہ پانی استعمال کرنے کا پابند کیا جاسکتا ہے۔ علاؤہ ازیں انہیں کچرے کو تلف کرنے کے بہتر طریقوں کو بھی اپنانے میں بھی سرمایہ کرنا ہوگی۔ ریاست کو نجی شعبے کے لئے مراعات کا اعلان کرتے ہوئے شفافیت یقینی بنانا چاہئے۔ اس کے علاؤہ، حکومت ٹیکس پالیسی کے طویل مدتی استحکام کا عہد بھی کر سکتی ہے۔ ماضی میں پاکستان میں کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے ساتھ ناروا سلوک دیکھا گیا جس سے دونوں فریقوں کو نقصان ہوا۔ اس کے علاؤہ پاکستان کی ساکھ کو بھی دھچکا لگا۔ سرمایہ کاروں کے ساتھ معاملہ تعاون اور شراکت داری کے جذبے کے ساتھ ہونا چاہئے۔ حکومت کو ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے میں وقت لگ سکتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ معیشت کا مفاد مقصود اور حکومتی ترجیح ہے۔ کان کنی کا فروغ قومی ترجیح ہونی چاہئے۔ پاکستان جامع ترقی کے حصول کے لئے اپنی معدنی دولت کے ذخائر و امکانات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے تاہم اِسے عوامی پالیسی کے بارے میں اپنے نکتہئ نظر پر نظر ثانی کرنی چاہئے جس میں شفافیت اور نجی شعبے کے ساتھ تعاون جیسے امور شامل ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ہمایوں اختر خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
سنہری موقع: شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
صدارتی طرز حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
چین کے 75 سال: سفر جاری
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
صنعتی ترقی: لائحہ عمل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک چین دوستی: مستقبل پر نظر
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت : شکوک و شبہات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شنگھائی تعاون تنظیم: پاکستان کا مفاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بھارت: شاطرانہ غیرجانبداری
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شنگھائی تعاون تنظیم: قومی مفادات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام