ماحولیاتی پناہ گزینوں کے حقوق اور تحفظ سے متعلق خصوصی قانون سازی کیلئے قومی اسمبلی سے رجوع کیا گیا ہے۔ اگر یہ قانون قومی اسمبلی سے منظور ہو جاتا ہے تو پاکستان ماحولیاتی پناہ گزینوں کو باضابطہ طور پر ایک مخصوص زمرے میں تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن جائے گا۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار صف اول کے ممالک میں شامل ہے۔ ہمارے لاکھوں بے گھر شہری آب و ہوا کی وجہ سے اپنے ہی ملک میں بے سروسامانی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور نہ صرف ماحولیاتی تباہی کا شکار ہیں بلکہ ایک غیر مرئی بحران کا بھی شکار ہیں‘ جسے قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ مذکورہ مسودہ¿ قانون ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ افراد کو قانونی تحفظ اور وقار فراہم کرتا ہے جسکے وہ مستحق ہیں۔ یہ آب و ہوا کے پناہ گزینوں کی سرکاری طور پر تعریف کرکے اور ان کے تحفظ کو نئی بنیاد قائم کرے گا۔ مجوزہ قانون سازی کے تحت قائم موسمیاتی پناہ گزین مراکز ہنگامی صحت کی دیکھ بھال‘ صفائی ستھرائی‘ فضلے کے انتظام اور اپنے تباہ شدہ گھروں کے قریب کسی محفوظ ضلع میں عارضی رہائشگاہوں جیسی ضروری خدمات فراہم کرینگے۔ یہ مراکز بے گھر ہونے والوں کو فوری ریلیف فراہم کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وہ ناقابل برداشت اور مایوس کن حالات کا سامنا کرتے ہوئے خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔ ان افراد کو بااختیار بنا کر پاکستان ایک واضح پیغام دے رہا ہے کہ ماحولیاتی پناہ گزین قومی وسائل پر بوجھ نہیں بلکہ یہ ہماری قوم کا حصہ اور ان کی پریشانی کا حل ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس طرح کی قانون سازی اور اس قانون سازی پر عمل درآمد سے پاکستان کا مستقبل زیادہ خوشحال بنایا جا سکے گا۔ مذکورہ بل سماجی تحفظ فراہم کرنے سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے بلکہ اس میں سرکاری اداروں کے احتساب کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ تمام ماحولیاتی پناہ گزینوں کو رجسٹر کرنے کیلئے قومی ڈیٹا بیس بنانے کا تصور بھی پیش کیا گیا ہے‘ اس ڈیٹا بیس میں بائیو میٹرک ڈیٹا اور میڈیکل ریکارڈ شامل ہوں گے۔ مزید برآں‘ ایک بورڈ آف گورنرز مجوزہ ماحولیاتی پناہ گزین مراکز کی نگرانی کریگا‘ جو ہر سطح پر شفافیت اور احتساب کو یقینی بنائے گا۔ یہ ادارہ‘ جس میں وفاقی حکومت‘ سول سوسائٹی اور اہم وزارتوں کے نمائندے شامل ہوں گے‘ اس بات کو بھی یقینی بنائے گا کہ مراکز کو مو¿ثر اور منصفانہ طریقے سے چلایا جائے۔ پناہ گزینوں کو ان کے آبائی علاقوں میں واپسی کے امکانات کے بارے میں باقاعدگی سے اپ ڈیٹس فراہم کرکے‘ حکومت انہیں ناامید ہونے سے بچا سکتی ہے۔ پاکستان صرف اپنے بحران کا جواب نہیں دے رہا۔ ہم دنیا کیلئے ایک مثال قائم کر رہے ہیں اگرچہ بنگلہ دیش اور بحرالکاہل کے جزائر جیسے ممالک کو اسی طرح کی آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا لیکن پاکستان پہلا ملک ہوگا جو ماحولیاتی پناہ گزینوں کے تحفظ کیلئے باضابطہ قانونی فریم ورک متعارف کرائے گا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اس آئینی اقدام سے دیگر اقوام بھی رہنمائی لیں گی۔ کون نہیں جانتا کہ آب و ہوا کی تبدیلی عالمی بحران ہے اور یہ عالمی بحران چونکہ مشترکہ تباہی کا باعث بھی بن رہا ہے اس لئے مشترک عالمی ردعمل ضروری ہے لیکن پاکستان اس بات کا انتظار نہیں کر سکتا کہ دنیا ہماری مدد کو آئے گی۔ پاکستان کو اپنے راستے کا انتخاب خود کرنا ہے اور قانون سازی جیسے جرا¿ت مندانہ فیصلوں کے ذریعے دنیا کی رہنمائی اور قیادت کرنی چاہئے۔ (بشکری دی نیوز۔ تحریر معین عامر پیرزادہ۔ ترجمہ ابوالحسن امام)