کتب بینی

ورلڈ پاپولیشن ریویو نامی ادارے نے پڑھنے کی عادات کے بارے میں اعداد و شمار شائع کئے ہیں۔ امریکی ہر سال 357 گھنٹے مطالعہ کرتے ہیں اور ہر امریکی ایک سال میں اوسطاً سترہ کتابیں پڑھتا ہے۔ امریکہ کے بعد سب سے زیادہ کتابیں بھارت (ہندوستان) میں پڑھی جاتی ہیں جہاں ہر بھارتی سال میں 352گھنٹے مطالعہ کرتا ہے اور ہر بھارتی سال بھر میں اوسطاً سولہ کتابیں پڑھتا ہے۔ کتب بینی کے لحاظ سے برطانیہ (انگلینڈ) کا تیسرا نمبر ہے۔ ہر برطانوی شہری اوسطاً 343 گھنٹے مطالعہ کرتا ہے اور سال میں پندرہ کتابیں پڑھتا ہے۔ پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ ہر پاکستانی سال بھر میں ساٹھ گھنٹے کتابیں پڑھتا ہے جبکہ ہر پاکستانی سال میں 2.6 کتابیں پڑھتا ہے۔ پاکستان میں کتب بینی آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے۔ پڑھنے کی عادات تبدیل ہو گئی ہیں اور لوگ کتابیں پڑھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ عالمی فہرست میں پاکستان کا شمار ان ممالک میں کیا گیا ہے جہاں سب سے کم کتابیں پڑھی جاتی ہیں۔ اسٹیٹسٹا مارکیٹ نامی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں کتابوں کی مجموعی فروخت سالانہ چھ کروڑ ڈالر ہے۔ بھارت میں کتابوں کی فروخت کا حجم 5.5 ارب ڈالر ہے، جو پاکستان کے مقابلے 90 گنا زیادہ ہے۔ عالمی آبادی کا تین فیصد ہونے کے باوجود پاکستان میں کتابوں کی فروخت عالمی آبادی کا صرف 0.05 فیصد ہے۔ ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن (ڈبلیو آئی پی او) کی ”دی گلوبل پبلشنگ انڈسٹری 2022ء“ نامی رپورٹ کے مطابق سال دوہزاربائیس کے دوران نصابی کتب کے علاؤہ پاکستان میں صرف 1911 نئی کتب شائع ہوئیں۔ اس عرصے کے دوران امریکہ میں 2 لاکھ 64 ہزار‘ جرمنی میں 4 لاکھ ایک ہزار‘ جبکہ سری لنکا جو کہ پاکستان کی نسبت چھوٹا ملک ہے وہاں تین ہزار سے زیادہ کتب شائع ہوئیں۔ کتب بینی کی عادت زوال پذیر ہے۔ گردوپیش میں دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی شخص کتاب لئے نظر آئے لیکن اکثریت موبائل فون استعمال کرتے دکھائی دے گی۔ دی اٹلانٹک نامی جریدے نے حال ہی میں اس رجحان پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کولمبیا یونیورسٹی کے نکولس ڈیمز کا حوالہ دیا گیا ہے‘ جو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے وسیع پیمانے پر مشہور ’لٹریچر ہیومینیٹیز‘ نامی مضمون پڑھا رہے ہیں جسے عام طور پر ”عظیم کتابوں کا کورس“ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کورسز عام طور پر مغربی ثقافت اور تہذیب کی بنیاد پر کتابوں کے مجموعے کا احاطہ کرتے ہیں۔ کولمبیا میں، اس کورس میں داخلہ لینے والے طالب علموں کو دو سمسٹر میں چوبیس کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں۔ تاہم‘ حالیہ برسوں میں‘ طلبہ میں کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہوا ہے۔ پاکستان میں پروفیسرز سے بات کرنے سے معلوم ہوا کہ زیادہ تر کتب بینی صرف نصابی کتب کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ دوسری اہم چیز کمپیوٹرز کے ذریعے سلائیڈز دیکھنے کی عادت ہے۔ اسے پاورپوائنٹ لعنت بھی کہتے ہیں۔ ایسی یونیورسٹیاں بھی ہیں جن میں لائبریری موجود نہیں اور کتب بینی سے گریز کی موجودہ صورتحال کا تصور کچھ عرصہ قبل تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں پاکستان کے مختلف شہروں میں برٹش کونسل اور امریکن سنٹرز کے نام سے لائبریریاں ہوتی تھیں لیکن آج آبادی میں اضافے کے باوجود کتب خانوں کی تعداد کم ہوئی ہے‘ جو لمحہئ فکریہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق ہر ایک سو میں سے 94 پاکستانی نوجوانوں کو لائبریری تک رسائی حاصل نہیں۔ ایک معروف مقامی پبلشر کے مطابق پاکستان میں ہر سال شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ کتابیں شائع اور فروخت کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ مقامی طور پر شائع ہونے والی کتابیں اس قدر مہنگی ہوتی جا رہی ہیں کہ یہ ایک عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ ہیں۔ حکومت کی جانب سے پہلے ہی اعلیٰ تعلیم کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے جبکہ کتب خانوں کے لئے مختص مالی وسائل میں بھی کمی کا سامنا ہے۔ کتب بینی کا کچھ بھی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ اچھا لکھنے کے لئے پڑھنا انتہائی اہم ہوتا ہے کیونکہ پڑھنے سے نئے خیالات، مختلف نکتہ ہائے نظر اور موضوعات کے بارے میں تفصیلات جاننے کا موقع ملتا ہے۔ کتب بینی کے بغیر فکری تجسس اور تنقیدی سوچ کا پروان چڑھنا ممکن نہیں ہے جو کسی بھی متحرک معاشرے کی بنیادیں ہوتی ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ ابوالحسن امام)